ْسندھ میں کمسن بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے،حلیم عادل شیخ

منگل 9 مئی 2017 23:49

ْسندھ میں کمسن بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے،حلیم ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 09 مئی2017ء)تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ نے کہاہے کہ جس معاشرے میں نابغ بچیوں کو اجتماعی زیادتیوں کا نشانہ بنایا جائے اور ملوث افراد کو جان بوجھ کر نہ پکڑا جائے اس معاشرے کا اسلامی معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا،ایس ایچ او کی کرسی پر بیٹھنے کو دہشت گردی کہنے والوں کو سندھ کی بیٹی کی عزت کے لیے کوئی قا نون نظر نہیں آتا۔

افسوس کہ سندھ بھر میں کمسن بچیوں کو درندگی کا نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہورہاہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہوگی ۔ا ن خیالات کااظہارانہوںنے گزشتہ دنوں زیادتی کا شکار ہونے والی کم سن بچی اقرا کیاہل خانہ سے رابطہ کرنے کے بعد کیا،انہوںنے کہاکہ شکار پور کی رہائشی 12سالہ اقراء کے والد اور متاثرہ خاندان کے مطابق کچھ روز قبل ملیر کینٹ کراچی میں غربت کے باعث اس کی بیٹی اقرااور بچی کی دادی را حب سہریانی نامی شخص کے گھر میں کام کاج کرتے رہے،جہاں گزشتہ دنوں بچی کو مبینہ طور پر چار نوجوان ثاقب ،خان محمد ،محمد مہذب اور شان سہریانی نے نشہ آور مشروب پلاکر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا جبکہ ہم آج تک پولیس اسٹیشن کے باہر دھکے کھارہے ہیں،ہماری کوئی بھی سننے والا نہیں ہے بہت کوششوں کے بعد پولیس نے میڈیکل کرانے کے لیے لیٹر جاری کیاہے ، مگر نشاندہی کے باوجود پولیس نے ابھی تک کسی بھی ملزم کوگرفتار نہیں کیاہے ۔

(جاری ہے)

حلیم عادل شیخ نے کہا کہ اقراکے والد کی کہانی کوئی نئی کہانی نہیں ہے ہم نے پہلے بھی ایسے واقعات پر اپنی آوازاٹھائی ہے اس مسئلے کے حل کے لیے بھی اپنی بھرپور کوششیں کرینگے انہوں نے کہاکہ سندھ بھر میں بہت سے واقعات کا علم ہونے کے باوجود ملزمان آزادانہ گھوم پھر رہے ہوتے ہیں،زیادتی کے خلاف در ج ہونے والی رپورٹوں کو رشوت خور پولیس افسران کی مدد سے تبدیل کروالیا جاتاہے ،مگر افسوس کے اس قدر درندہ صفت واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدہ اقدامات اٹھائے نہیں جاتے ۔

حلیم عادل شیخ نے کہاکہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں سندھ میں آئے روز اس طرح کے واقعات کا ہونا معمول بن چکے ہیں۔چاکلیٹ اور آئسکریم کھانے والے بچوں کے ساتھ بھی زیادتیاں ہوتو ایسے میں حکومت کی رٹ کہاں باقی رہ جاتی ہے ۔