پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی-افغانستان کے پاس نہ تو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی ہم ایسا کوئی ارادہ رکھتے ہیں‘ پاکستان کے مفادات کے خلاف کبھی کوئی ہدایات جاری نہیں کیں۔ مفاہمتی عمل کے لیے پاکستان سے زیادہ کوئی ملک اہم کردار ادا نہیں کرسکتا -کالعدم تحریک طالبان پاکستان ایک حقیقت ہے جس کی افغانستان میں موجودگی کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔عبداللہ عبداللہ- مختلف دھڑوں پر مشتمل کابل حکومت تقسیم کا شکار ہے اور اشرف غنی کا مکمل جھکاﺅ پاکستان مخالف عناصر کی جانب ہے جبکہ افغان فوج‘پولیس اور قانون نافذکرنے والے ادارے امریکیوں کے کنٹرول میں ہیں‘ ایسے حالات میں جب ملک کے مختلف اداروں کی سمت ایک نہ ہو تو مسائل حل نہیں ہوسکتے-طالبان تیزی سے افغانستان کے علاقوں پر قابض ہورہے ہیں -دفاعی ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 8 مئی 2017 21:31

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی-افغانستان کے پاس نہ تو پاکستان ..
کابل(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-میاں محمد ندیم۔08مئی۔2017ء) پاکستان اور افغانستان کے تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہیں اور افغان صدر اشرف غنی اور ان کے قریبی رفقاءکی جانب سے پاکستان کے ساتھ دھمکی آمیزلہجے میں بات کی جارہی ہے جبکہ افغان فورسسزمسلسل عالمی سرحدوں کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے کرتے رہتے ہیں -دنیا کے بعض جنگی ماہرین خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ شاید پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ چھڑسکتی ہے تاہم افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے پاکستان سے جنگ کے امکانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان حکومت ملک میں پاکستان مخالف طالبان کے خلاف کارروائی کررہی ہے اور پاکستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔

کابل میں پاکستانی صحافیوں کے وفد سے بات چیت کے دوران عبداللہ عبداللہ نے دونوں ممالک میں اعتماد کے فقدان کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان، پاکستان سے جنگ کا خواہشمند نہیں بلکہ استحکام کے لیے پاکستان کی مدد کا طالب ہے۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو حقیقت جبکہ اس کی افغانستان میں موجودگی کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔

اس موقع پر افغان چیف ایگزیکٹو نے پاکستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کا اعتراف بھی کیا لیکن ساتھ ہی افغانستان مخالف عناصر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کردیا۔ عبداللہ عبداللہ نے دعوٰی کیا کہ افغانستان اچھے اور برے طالبان کی کوئی تمیز نہیں کرتا۔افغان چیف ایگزیکٹو نے کسی کا نام لیے بغیر انکشاف کیا کہ پاکستان کے سابق سپہ سالار نے افغان طالبان کو بات چیت پر آمادہ کرنے کے لیے ایک ماہ کا وقت مانگا تھا لیکن وہ اپنا وعدہ وفا کرنے میں ناکام رہے۔

دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ نہ تو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی افغانستان ایسا کوئی ارادہ رکھتا ہے، لہذا پاکستان کے مفادات کے خلاف کبھی کوئی ہدایات جاری نہیں کیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان مفاہمتی عمل کے لیے پاکستان سے زیادہ کوئی ملک اہم کردار ادا نہیں کرسکتا تاہم باہمی تعلقات کی موجودہ صورتحال کچھ اطمینان بخش نہیں جبکہ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ افغانستان میں ہونے والی ہر کارروائی کا الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے۔

انھوں نے زور دیا کہ طالبان ہمارے دشمن ہیں اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے رعایت دینے کے بجائے مجبور کرنا ہوگا۔ عبداللہ عبداللہ نے خبردار کیا کہ دہشت گردوں کے ساتھ کوئی ہمدردی اور تعاون نہیں کرسکتے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی پارلیمانی وفد کا دورہ مثبت رہا تاہم حالیہ واقعات کے تناظر میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تعاون کا فقدان ہے۔

دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف دھڑوں پر مشتمل کابل حکومت تقسیم کا شکار ہے اور صدر اشرف غنی کا مکمل جھکاﺅ پاکستان مخالف عناصر کی جانب ہے جبکہ افغان فوج‘پولیس اور قانون نافذکرنے والے ادارے امریکیوں کے کنٹرول میں ہیں تو ایسے حالات میں جب ملک کے مختلف اداروں کی سمت ایک نہ ہو تو مسائل حل نہیں ہوسکتے-امریکی دفاعی تجزیہ نگار کھلے عام اعتراف کررہے ہیں کہ رواں سال کے آخرتک افغان طالبان ملک کے اکثر علاقوں پر قابض ہوجائیں گے یہی وجہ ہے کہ اشرف غنی اور امریکی انتظامیہ نے سابق افغان مجاہدلیڈرانجینئیرگلبدین حکمت یار کے ساتھ مذکرات کرکے انہیں آمادہ کیا ہے کہ وہ اپنا کردار اداکریں ‘گلبدین حکمت یار کا20سال کے طویل عرصے کے بعد اپنی روپوشی ختم کرکے کابل میں ایک بڑے اجتماع میں شرکت کرنا ڈیل کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے کیونکہ اشرف غنی اور ان کے ساتھیوں کے مقابلے حکمت یار عوامی لیڈر ہیں اور انہیں پشتون حلقوں میں بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہے-افغانستان میں نیٹو افوج کے سربراہ امریکی جنرل نکلسن سے سینٹ کی آرمرڈکمیٹی نے فروری2017میں ایک بریفنگ کے دوران جب مزید ٹروپس افغانستان بجھوانے کی تجویزسامنے رکھی تو ان سے سوال کیا گیا کہ کیا انہیں یہ فوج جنگ جیتنے کے لیے درکار ہے ؟جس پر جنرل نکلسن نے جواب دیا کہ نہیں ہمیں یہ فوجی دستے صرف اپنا موجودہ ”سٹیٹس“برقرار رکھنے کے لیے درکار ہیں-امریکی حکومت کے افغانستان میں ادارے ”ایس آئی جی اے آر“نے مارچ میں جاری ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ نومبر2015میں افغان حکومت کی عملداری ملک کے 72فیصد علاقوں تک تھی جوکہ نومبر2016تک صرف 57فیصد رہ گئی ہے-تاہم آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کے70فیصد علاقے طالبان کے کنٹرول میں ہیں جبکہ کابل میں بیٹھے صدر اشرف غنی کی انتظامیہ کی عملدداری صرف30فیصد علاقوں تک ہے اور وہ تیزی سے علاقے کھورہے ہیں دودن پہلے ہی افغان طالبان نے ایک بڑی لڑائی کے بعد صوبہ قندوزکے ضلع ذال کے ہیڈکواٹرزپر قبضہ کرلیا ہے -موسم گرما میں طالبان کی جانب سے کاروائیوں میں مزید شدت آنے کا امکان ہے -امریکی ماہرین کی جانب سے یہ الزام بھی عائدکیا جارہا ہے کہ روس تاریخ کو دہرارہا ہے اور روس افغان طالبان کو مکمل مدد فراہم کررہا ہے جس کی وجہ سے امریکی فورسسز اور افغان حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے-