مبینہ توہین رسالت پر احتجاجی تحریک; گولی لگنے سے 13 سالہ نوجوان جاں بحق

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعہ 5 مئی 2017 14:56

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 05 مئی 2017ء) : گذشتہ روز بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں توہین مذہب کے مرتکب ہونے والے شخص کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ مشتعل ہجوم مبینہ طور پر توہین مذہب کا مرتکب ہونے والے گرفتار ملزم کی تلاش میں پولیس اسٹیشن کے باہر اکٹھا ہو گئے۔ ایس ایس پی لسبیلہ ضیا مندوخیل نے اپنے بیان میں بتیا کہ 35 سالہ ہندو شخص سے متعلق مقامی افراد نے شکایت کی تھی کہ اس نے توہین مذہب پر مبنی مواد واٹس ایپ پر شئیر کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مقامی افراد کی شکایت پر ملزم کو گرفتار کر کے جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔ مقامی افراد کی شکایت پر پولیس نے ملزم کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 259A اور 259Bکے تحت مقدمہ بھی درج کیا۔ ملزم کی توہین مذہب کا مواد شئیر کیے جانے والا موبائل فون بھی ضبط کر لیا گیا۔

(جاری ہے)

ایس ایس پی نے بتایا کہ مقامی عدالت نے ملزم سے مزید تفتیش کے لیے اسے گڈانی جیل منتقل کر دیا۔

بروز جمعرات صبح 11 بجے ایک مشتعل ہجوم حب پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہو کر ملزم کو حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے لگا۔ مندو خیل پولیس اورایف سی اہلکاروں نے مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش کی اور انہیں بتایا کہ ملزم کو جیل منتقل کر دیا گیا ہے لیکن مظاہرین نے یہ ماننے سے انکار کر دیا۔ ایس ایس پی نے بتایاکہ ہم مشتعل ہجوم میں موجود چار افراد کو پولیس اسٹیشن کے اندر لے گئے لیکن وہاں بھی انہوں نے ملزم کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔

مندوخیل پولیس نے بتایا کہ مظاہرین کے مشتعل ہونے پر پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور ہوائی فائرنگ کا سہارا لیا جبکہ 20 مظاہرین کو گرفتار بھی کیا۔ تشدد کے نتیجےمیں ایس پی لسبیلہ جان محمد کھوسہ، اسسٹنٹ ڈپٹی کشمنر طارق مینگل سمیت دیگر پولیس حکام اور ایدھی کا ایک ریسکیو اہلکار زخمی ہوئے۔ اسی دوران بسم اللہ خان کا 13 سالہ بیٹا قدرت خان بھی مظاہرین کی ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہوا۔

اور بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ مندوخیل نے بتایا کہ مشتعل ہجوم نے کراچی سے آنے اور جانے والی ٹریفک کو بھی بلاک کر رکھا تھا۔ جبکہ علاقہ میں تمام کاروبار بھی بند تھے۔ مندوخیل نے مزید کہا کہ مشتعل ہجوم کا کوئی رہنما نہ ہونے پر ہجوم کو کنٹرول کرنا نہایت مشکل تھا۔ تاہم مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس فعل کی حوصلہ شکنی کیے جانے پر اب صورتحال کنٹرول میں ہے۔

متعلقہ عنوان :