پاکستان کی بقاء جمہوریت اور ایک وفاقی نظام میںہے، اس کی سب سے بڑی ضمانت پاکستان کا آئین ہے جس میں صوبوںکو حقوق دیئے گئے ہیں
چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی کا پشاور میں بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی برائے خواتین میں منعقدہ قومی کانفرنس سے خطاب
بدھ 3 مئی 2017 23:30
(جاری ہے)
میاں رضاربانی نے کہا کہ وفاقیت کا مسئلہ یہی ہے کہ آئین ، وفاق ، صوبے اور اٹھارویں ترمیم اپنی جگہ موجود ہیں لیکن عمل درآمد نہیں ہورہا اور عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مرکزیت پسند ذہنیت مضبوط اسلام آباد کو مضبوط وفاق کہتی ہے لیکن مضبوط صوبے ہی مضبوط وفاق کی ضامن ہے۔
اٹھارویں ترمیم نے حالات یکسر تبدیل کردیئے اور صوبوں کو زیادہ بااختیار بنانے کی بات کی لیکن مرکزیت پسند ذہنیت ’’میں نہ مانوں ‘‘ کی پالیسی پر کارفرما رہی ۔ انہوں نے کہا کہ جو ادارے بنائے گئے انہیں مناسب طریقے سے استعمال نہیں کیا جارہا ۔ جس کی وجہ سے صوبوں کی دی گئی خودمختاری کے ثمرات صحیح معنوں میں صوبوں تک نہیں پہنچ رہے۔ آئین کے آرٹیکل 172کی شق 3 میں ترمیم کی گئی اور اٹھارویں ترمیم کے بعد تیل و گیس کے اوپر متعلقہ صوبے اور وفاق کا حق برابر برابر کر دیا گیا ۔لیکن افسوس کے ساتھ کہ آج دن تک اس کا کوئی مناسب لائحہ عمل نہیں بنایا گیا اور آج بھی وفاق سو فیصد کنڑول کر رہا ہے ۔میاں رضاربانی نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی شکل میں ایک فورم موجود ہے اور بلخصوص اٹھارویں ترمیم کے ذریعے مشترکہ مفادات کونسل کو وفاق اور صوبوں کی ایک مشترکہ قیادت کے طور پر سامنے لانے کی کوشش کی گئی ، فیڈرل لیجسلٹیو پارٹ II میں جو آئٹمز ہیں اور جو ریگولیٹری باڈیز ہیں اور جو خود مختار اور نیم خود مختار ادارے ہیں ان کو ملکر چلائیں اور اس کا ایک مناسب لائحہ عمل دیا گیا اور مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل کیلئے آئینی طور پر طریقہ کار وضع کیا گیا لیکن اُس طریقہ کار اور لائحہ عمل پر من و عن عمل نہیں ہو رہا اور جو امور مشترکہ مفادات کونسل میں جانے چاہیے وہ نہیں جا رہے ۔جو خلفشار صوبوں اور وفاق کے درمیان ہے اگر اس کو سی سی آئی میں زیر غور لایا جائے تو یقینی طور پر ان مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے اور اٹھارویں ترمیم میں این ایف سی کے معاملے کا بھی پوری طرح احاطہ کیا گیا ہے ۔ میاں رضاربانی نے کہا کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اگست1947 کی تقاریر میں خدوخال دئیے اور کہا کہ پاکستان ایک ترقی پسند ریاست ہوگی لیکن بد قسمتی سے قائد اعظم کی وفات کے بعد وہ تصور بھی تبدیل کر دیا گیا اور پاکستان کو نیشنل سیکیورٹی ریاست بنا دیا گیا جس کی وجہ سے ترجیحات تبدیل ہوئیں اور 1973 تک نہ تو کوئی آئین ملا اور نہ اس پر کوئی عملدرآمد ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم اور صحت پر صوبوں کا حق تھا لیکن وفاق نے اس پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا تھا اور جب اٹھارویں ترمیم کے تحت تعلیم اور صحت کے شعبوں کو صوبائی دائر اختیار میں دینے کا وقت آیا تو اس پر کافی مذاحمت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ ریاست اپنے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے اور سیکیورٹی ریاست کے تصور کو آگے لے جانے کیلئے ایسا نظام وضع کرنا چاہتی تھی جس سے پاکستان کی نئی نسل تاریخ سے نا واقف ہو اور اپنی ثقافت سے بگانہ ہو اور ایسے شہری پیدا کیے جو ریاست کے سامنے سوال نہ اٹھا سکیں اور اسی حکمت عملی نے عدم استحکام کی فضاء پیدا کی اور عدم برداشت کو فروغ ملا آج یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس حبیب جالب اور جان ایلیا جیسے لوگوں کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ معاشرے میں عدم برداشت کا کلچر فروغ پاگیا ہے۔ اور ایک خلا پیدا ہوگیا ہے اور اس صورتحال کے پیش نظر دہشت گردی اور انتہا پسندی جنم لے رہے ہیں۔ اور افسوس کے ساتھ اس کا کوئی حل سامنے نہیں آرہا ۔شدت پسندی کو حکومتی سطح پر حکمت عملی کے ذریعے سے نہیں روکا جاسکتا ۔ شدت پسندی کیخلاف پارلیمان کے اندر پاکستان کے دانشوروں کے اندر پاکستان کی نوجوان نسل اور یونیورسٹیوں کے اندر جب بحث و مباحثہ ہوگا تو وہاں سے اس کا حل نکلے گا ۔انہوں نے کہا کہ آمروں نے طلبا تنظیموں پر پابندی لگائی اور بحث مباحثے کا کلچر ختم ہوا ۔ میاں رضاربانی نے کہا کہ جامعات اور تعلیمی اداروں سے نئی سوچ نکلتی ہے اور نئے خیالات جنم لیتے ہیں ان کو جان بوجھ کر ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔اور ریاستی فیصلوں نے ہی ٹریڈ یونینز کا گلہ گھونٹ دیا ۔ سوچ ، علم اور ادب کو ختم کیا گیا ۔ افتتاحی تقریب سے پاکستان ادارہ برائے پارلیمانی خدمات کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرظفراللہ خان نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ پاکستان ایک وفاقی ریاست کے طور پر قائم ہوا تھا تاکہ تمام مذہبی اور نسلی گروہوں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہو ، تعلیمی اداروں کو وفاقیت اور آئین سے متعلق زیادہ سے زیادہ کورسز کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے نوجوان نسل کے مابین بحث مباحثے کے رویوں کے فروغ پر بھی زور دیا ۔ یونیورسٹی کی وائس چانسلر رضیہ سلطانہ نے بھی خطاب کیا اور کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔جبکہ دیگر ماہرین نے بھی خطاب کیا ۔ دوروزہ کانفرنس میں بڑی تعداد میں ماہرین وفاقیت اور اسے درپیش مشکلات کے بارے میں تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے جس سے طلباء میں وفاقیت سے متعلق آگاہی پھیلانے میں مددملے گی ۔مزید قومی خبریں
-
صدرمملکت کے خطاب پر بحث کے حوالے سے ایوان کے اتفاق رائے سے امور طے کیے جائیں گے، سپیکرقومی اسمبلی
-
گرل فرینڈ کا برگر کھانے پر ایس ایس پی کے بیٹے نے جج کے بیٹے کو قتل کر دیا
-
پنجاب پولیس کو 1ارب 20کروڑ روپے کے فنڈز جاری
-
9 مئی: ڈاکٹر یاسمین راشد کی درخواست ضمانت پر سماعت 27 اپریل تک ملتوی
-
موسمیاتی تبدیلی کرہ ارض کا درپیش عظیم چیلنج ہے، صورتحال کی سنگینی کو سمجھنا ہوگا: بلیغ الرحمان
-
گرفتاری کاڈر:شیر افضل مروت نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت کیلئے رجوع کرلیا
-
فواد چوہدری کیخلاف مقدمات،سیکرٹری داخلہ کو توہین عدالت کی درخواست پر نوٹس
-
کے پی حکومت کا بیوٹی پارلرز کے بعد وکلا کو بھی فکسڈ ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ
-
راولپنڈی، 7 سالہ لڑکی کی قابل اعتراض تصاویر اور ویڈیوز وائرل کرنے پر ملزم کو 3 سال قید اور 25 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا
-
جاوید لطیف اور رانا تنویر کے درمیان اختلافات حلقے میں ٹکٹوں کی تقسیم تنازع قرار
-
محاز آرائی سے جمہوریت کمزور ہوگی،مولانا نام بتائیں اسمبلی کس نے بیچی،فیصل کریم کنڈی
-
وزیراعظم کے تاجروں سے خطاب کے دوران بھی بانی پی ٹی آئی عمران خان کا تذکرہ
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.