ہم اپنے فرائض کی انجام دہی اور اس قوم کیلئے کام کرنے میں سنجیدہ ہیں، جسٹس میاں ثاقب نثار

ہم جلد معیاری انصاف کی فراہمی میں انقلابی کام نہ کرسکے تویہ ہماری ناکامی ہوگی ، اس کیلئے خود کو کبھی معاف نہیں کر پائیں گے،چیف جسٹس آف پاکستان ججز کے پاس من مرضی اور منشاء کے مطابق فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہے، ہمیں قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہوتے ہیں پائلٹ کریمینل جسٹس پراجیکٹ اور ADR سنٹرز کی کامیابی کا سہرا ان پراجیکٹس سے منسلک اسٹیک ہولڈرز کے سر ہے،پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں منعقدہ سمپوزیم سے خطاب

ہفتہ 29 اپریل 2017 19:46

ہم اپنے فرائض کی انجام دہی اور اس قوم کیلئے کام کرنے میں سنجیدہ ہیں، ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 29 اپریل2017ء) چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ ہم اپنے فرائض کی انجام دہی اور اس قوم کیلئے کام کرنے میں سنجیدہ ہیں، اگر ہم جلد اور معیاری انصاف کی فراہمی میں انقلابی کام نہ کرسکے تویہ ہماری ناکامی ہوگی اور اس کیلئے خود کو کبھی معاف نہیں کر پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ججز کے پاس من مرضی اور منشاء کے مطابق فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ہے، ہمیں قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہوتے ہیں ۔

فاضل چیف جسٹس آف پاکستان صوبہ پنجاب میں ماڈل کورٹس اور مصالحتی مراکز کے قیام کے حوالے سے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں منعقدہ سمپوزیم میں خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ، عدالت عالیہ کے فاضل جج صاحبان، وکلاء رہنماء، ضلعی عدلیہ کے ججز، ماڈل کورٹس سے منسلک تمام اسٹیک ہولڈرز کے نمائندے موجود تھے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے شرکاء سے کہا کہ پائلٹ کریمینل جسٹس پراجیکٹ اور ADR سنٹرز کی کامیابی کا سہرا ان پراجیکٹس سے منسلک اسٹیک ہولڈرز کے سر ہے، انہوں نے کہا کہ قانون میں تبدیلی لائے بغیر کریمینل جسٹس میں خاطر خواہ نتائج حاصل کئے ہیں اور یہ اس بات کا مظہر ہے کہ اگر خواہش اور دلچسپی ہوتو موجودہ قوانین کے تحت بھی فوری اور معیاری انصاف یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

فاضل چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ وہ مذکورہ پراجیکٹس سے منسلک ججز، وکلاء اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے مشکور ہیں جنہوں نے ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کرنا آسان تو نہیں ہے، زندگی موت کے معاملے ہوتے ہیں، سزا و جزا کا تعین کرنا ہوتا ہے، اس لئے ججز کیلئے اولین ضروری ہے کہ وہ ہمہ وقت قانون سے مسلح ہوں، جب تک ججز کو قانون پر دسترس نہیں ہوگی تو وہ سول مقدمات میں جلد فیصلے نہیں کر سکیں گے۔

انہوں نے ججز سے کہا کہ ایسے فیصلے دیں جو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج نہ ہوں اور اگر ہوں تو آپ کے فیصلے قائم رہیں۔ فاضل چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے پاس وقت قلیل ہے ، اس لئے موجودہ قوانین کے تحت ہی لوگوں کے اعتماد پر پورا اترنا ہے، لیکن ساتھ ساتھ اصلاحات کا عمل بھی جاری رکھنا ہے۔ وکلاء صاحبان ایسے فورم بنائیں جہاں اس حوالے سے بحث و مباحثے ہوں تاکہ قوانین میں بہتری لائی جا سکے، وکلاء کے تعاون کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکیں گے، انہوں نے کہا کہ ہمیں اس پر جلدی نہیں ہے ، یہ کام ہم سکون کے ساتھ مکمل غور حوض کے ساتھ کریں گے تاکہ کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہ رہے۔

فاضل چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ جس شخص کا حق مارا جاتا ہے وہ عدالت میں تاریخ ملنے پر بہت مایوس ہوتا ہے، اگر عدالت میںجج حاضر ہو، وکیل بھی موجود ہو تو پھر تاریخ دے دی جائے تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس میں صرف دو ہی صورتیں سامنے آتی ہیں، یاتو وکیل کیس سنانا نہیں چاہتا یا جج سننا نہیں چاہتا، ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں صورتیں ہی سائلین میں مایوسی کا سبب بنتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انسان کے وجود اور انصاف کی طلب ایک دوسرے سے جد ا نہیں ہوسکتے، ان کا کہنا تھا کہ چھوٹے سے چھوٹے معاشرے میں بھی کسی انسان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہوگی اوراس بناء پر اختلافات جنم لیتے ہوں گے اور ان مسائل کے حل کیلئے وہاں کوئی ایسا شخص بھی موجود ہوگاجس کی ایمانداری پر سب کو اعتماد ہوتا ہوگا ، جسے وہ منصف سمجھتے ہوں گے۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف کی یہ ابتدائی شکل اپنی ارتقائی مراحل طے کر تے ہوئے آج ایک ادارے کی شکل اختیار کر چکی ہے لیکن منصف میں غیرجانبداری، آزادی، سوچ اور دیانتداری کے عناصر ساتھ ساتھ چلتے رہے ، آ ج یہ ادارہ مختلف قوانین کے طابع ہے اور منصف کوانہی مروجہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں جب بیس پچیس سال پہلے ADR سسٹم شروع ہوا تو وہاں بھی سب سے بڑی مزاحمت وکلاء کی صورت میں سامنے آئی لیکن آج وہاں ADR سب سے زیادہ کامیاب ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی نئے نظام کو اپنانے میں وقت لگتا ہے اور ہمیں امید ہے پاکستان میں مصالحتی نظام سے عدلیہ میں بہت بہتر اور مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ کسی بھی جرم کی میڈیا میں تشہیر بہت زیادہ ہوجاتی ہے، میڈیا تمام گواہاں اور ثبوت دکھا دیتا ہے لیکن یہ چیزیں ہمارے تفتیشی افسران کو نظر نہیں آتیں ، کمزور تفتیش کی بنیاد پر ملزم رہا ہوجاتیں اور ساراالزام عدالتوں پر آجاتا ہے، پولیس کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور درست تفتیش سے گہنگاروں کو انکے انجام تک پہنچانے میں معاونت کرنا ہوگی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ زندگی میں بہت کم ہوتا ہے کہ انسان کوئی خواب دیکھے اور اپنی آنکھوں کے سامنے اسکی تعبیر بھی دیکھے لیکن وہ اس معاملے میں بہت خوش نصیب ہیں۔انہوں نے کہا کہ پولیس کریمینل جسٹس سسٹم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اگر پولیس عدالتوں کی مثبت انداز میں معاونت کرتی رہے گی تو یہ سسٹم کامیابی سے چلتا رہے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس، جیل حکام، پراسیکیوشن اور وکلاء سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز نے اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیا اور نتائج ہمارے سامنے ہیں، اگر پورا نظام سہی انداز میں کام کرے گا تو جلد انصاف کی فراہمی کا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ صرف زیادہ سے زیادہ مقدمات کو نمٹانا ہی انصاف نہیں ہے بلکہ انصاف یہ ہے کہ مقدمہ میں فیصلہ کتنا معیاری ہے۔

مقدمات کے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا ضروری ہے، اگر ضلعی سطح پر معیاری انصاف فراہم کیا جائے گا تو اعلیٰ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بہت کم ہو جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ فیصلہ کروتو انصاف کے ساتھ کرو اور امانت داروں کو انکی امانت لوٹا دو۔ انہوں نے کہا کہ بطور جج تو انصاف کرنا ہماری ذمہ داری ہے لیکن یہ امانت کیاہے، ان کا کہنا تھا کہ روزانہ جاری ہونے والی کاز لسٹ ہمارے پاس امانت ہوتی ہے، ہم نے اس کاز لسٹ کے مطابق تمام مقدمات کو سننا ہوتا ہے اور یہ سائلین کی جانب سے ہمارے پاس امانت ہوتی ہے۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کا کہنا تھا کہ کریمینل جسٹس پائلٹ پراجیکٹ کے پیچھے بنیادی اصول تھا کہ جن مقدمات میں ریاست مدعی ہوتی ہے اس میں جلد انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے، عدالت کو مکمل طور پر معاونت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، چودہ دنوں میں تفتیش مکمل کرنا اور سترہ دنوں میں چالان پیش کرنا پولیس پر قانونی فرض ہے اور چالان پیش ہوجانے کے بعد وقت پر عدالتی معاونت کرنا پراسیکیوشن اور عدالتوں میں ملزمان کی بروقت پیشی جیل حکام کی ذمہ داری ہے۔

اگر اسی طرح تمام ادارے اپنی اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری کریں گے تو کوئی شک نہیں لوگوں کو انکی سوچ سے بھی پہلے انصاف ملے گا۔ لیکن اگر انصاف کی فراہمی میں لیت و لعل سے کام لیا جائے گا یا مقدمات کو لمبا کرنے میں مختلف حربے استعمال کئے جائیں گے تو پھر یہ گناہ ہم سب کے کندھوں پر ہوگا۔ سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عہدہ سنبھالا تو ان کے سامنے دو آپشنز تھیں، ایک تو سسٹم کو اسی طرح چلنے دیتے اور دوسرا کچھ محنت کرکے اس سسٹم میں بہتری لاتے اور سائلین کیلئے آسانیاں پیدا کرتے ، فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے دوسری آپشن پر عمل کیا اور پنجاب کی عدلیہ میں خاطر خواہ اصلاحات لائی گئی ہیں اور مزید کام جاری ہے۔

انہوں نے کہا یہ سب چیف جسٹس آف پاکستان اور جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے اعتماد کی بدولت ہے کہ وہ آج کامیابی کی راہ پر گامزن ہین۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ کسی بھی نئے نظام کو اپنانے کیلئے ذہن تبدیل کرنا ہوتاہے، انہوں نے کہا کہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ماڈل کورٹس کے قیام سے بھی کچھ مسائل سامنے آئے ہوںگے لیکن ہمیں تعمیری تنقید چاہیے ہمیںہر قدم پر وکلاء کا ساتھ چاہیے، کیونکہ عدالت عالیہ لاہور کی جانب سے اٹھائے جانے والے تمام اقدمات کا مقصد عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانا ہے۔

فاضل چیف جسٹس نے سمپوزیم میں تشریف آوری پر چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس آصف سعید خان کھوسہ، وکلاء رہنمائوں اور دیگر اداروں کے نمائندوںکا شکریہ بھی ادا کیا۔ قبل ازیں سمپوزیم سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور عابد حسین قریشی نے ADR سنٹرزسے متعلق تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ لاہور میں قائم تین مصالحتی مراکز میں اب تک 145 مقدمات بھیجے گئے جن میں سے 86 مقدمات کو کامیاب سے حل کیا گیا جبکہ 30 مقدمات زیر سماعت ہیں، ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج سہیل ناصر نے ماڈل کورٹس کے حوالے سے بتایا کہ چھ اضلاع اٹک، چنیوٹ، وہاڑی، نارووال، لودھراں اور منڈی بہائوالدین میں قائم ماڈل کورٹس میں 1781 کریمینل مقدمات کے ٹرائل مکمل کئے گئے ہیں، جن میں 485 قتل، 771 نارکوٹکس اور 525 دیگر مقدمات شامل ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر چار مزید اضلاع راولپنڈی، جہلم، بہاولنگر اور مظفر گڑھ کو بھی پائلٹ پراجیکٹ میں شامل کیا جارہا ہے اور ان چار اضلاع میں سول مقدمات کے حوالے سے بھی ماڈل کورٹس قائم کی جارہی ہیں۔

سمپوزیم کے اختتام پر ماڈل کورٹس کے ججز کو تعریفی اسناد بھی دی گئیں۔ (ایم خالد)