انصاف کی فراہمی میں سنجیدہ ، اپنی آئینی ،قانونی ،اخلاقی ذمہ داری پوری کریں گے ‘ چیف جسٹس آف پاکستان

اپنی عزت کی حفاظت سب سے اہم بات ،ججز کو بہت سی جگہوں پر لوگ استعمال کر جاتے ہیں ،بعض اوقات جج کو پتہ ہی نہیں ہوتا، اس میں قصور جج کا نہیں ہوتا ہم کو ججز سمیت ہر کسی پر عدم اعتماد کا فقدان ہو گیا ،آج ججز کو بہت زیادہ مراعات دی جا رہی ہیں لیکن جس آدمی کا صحیح حق چلا جائے اس کو کبھی نہیں بھولتا‘مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کا پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں ماڈل کورٹس سے متعلق سمپوزیم سے خطاب

ہفتہ 29 اپریل 2017 14:54

انصاف کی فراہمی میں سنجیدہ ، اپنی آئینی ،قانونی ،اخلاقی ذمہ داری پوری ..
"لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 اپریل2017ء) چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ انصاف کی فراہمی میں سنجیدہ ہیں ، ہم اپنی آئینی ،قانونی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کریں گے اور اگر اپنافرض پورا نہ کیا تو خود کو معاف نہیں کرپائوں گا، اپنی عزت کی حفاظت سب سے اہم بات ہے کیونکہ ججز کو بہت سی جگہوں پر لوگ استعمال کر جاتے ہیں اور بعض اوقات جج کو پتہ ہی نہیں ہوتا، اس میں جج کا قصور نہیں ہوتا،ہم کو ججز سمیت ہر کسی پر عدم اعتماد کا فقدان ہو گیا ہے مصالحت کے اس نظام میں تربیت یافتہ لوگوں کو ہونا بہت ضروری ہے ،آج ججز کو بہت زیادہ مراعات دی جا رہی ہیں لیکن جس آدمی کا صحیح حق چلا جائے اس کو کبھی نہیں بھولتا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں صوبہ پنجاب میں ماڈل کورٹس سے متعلق سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس محمد آصف سعید خان کھوسہ اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم انصاف کی فراہمی میں سنجیدہ ہیں انصاف فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے اگر آج ہم اپنا کام نہ کر سکے تو میں یہ ضرور کہوں گا کہ میں اپنی ڈیوٹی مکمل نہیں کر سکا ،یہ کام ایک آدمی کے بس کی بات نہیں ہم سب کو مل کر کام کرنا ہو گا ۔

قانون میں تبدیلی کئے بغیر ہم نے یہ کام کیا ہے، اگر دلچسپی ہو تو اس قانون میں رہ کر بہت کام کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ججز صاحبان کے ساتھ وکلاء نے اس منصوبے کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے وکلا ء کی معاونت کے بغیر یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکتا تھا۔سول قوانین کو اس منصوبے میں مدنظر رکھنا ہوگا۔سول قوانین بہت پیچیدہ ہوتے ہیںسول معاملات میں منصف کی قوانین سے آگاہی بہت ضروری ہے جو بھی ججز اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں وہ جان لیں کہ فیصلہ قانون کے مطابق کرنا ہے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ججز کی ذمہ داری ہوتی ہے جج کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ جب کوئی فیصلہ آئے تو اس کو اچھے طریقے سے پڑھے، تمام قوانین کا مطالعہ کرے ججز ہائی کورٹ رولز کا مطالعہ کریں ،بہت سے کیسز میں تعمیل مناسب نہیں ہو رہی کیسز سننے کے دوران تمام قانونی تقاضے پورے کئے جانے چائیں جب تک سول قوانین پر مکمل دسترس نہیں ہو گی سول کیسز کے فیصلے نہیں کئے جا سکتے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہر جج کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کی مکمل آگاہی ہونی چائیے ،چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اس منصوبے کے لئے بہت محنت کی ہے بہت سارا کام ہم کو کرنا ہے بار کے نمائندوں سے گزارش ہے کہ ہمارے ساتھ مل کر کام کریںقوانین میں بہتری کے لئے ہمارے ساتھ آکر بیٹھیںایک کانفرنس سپریم کورٹ میں منعقد کی جائے گی ، جس میں قوانین سے آگاہی بتائی جائے گی ہماری ٹیم کو وکلاء نمائندوں کی مدد کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنی عزت کی حفاظت کر یںججز کو بہت سی جگہوں پر بہت سے لوگ استعمال کر جاتے ہیں لیکن بعض اوقات جج کو پتہ ہی نہیں ہوتا، اس میں جج کو قصور نہیں ہوتا۔ آج ججز کو بہت زیادہ مراعات دی جا رہی ہیںجس آدمی کا صحیح حق چلا جائے اس کو کبھی نہیں بھولتا ،مقدمات کا فیصلہ جان بوجھ کر تاخیر میں نہ ڈالیںفیصلے آپ کے پاس سائلین کی امانت ہیں، پوری ایمانداری سے اور بروقت ان کو واپس کریں ۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے مزید کہا کہ ہم کو ججز سمیت ہر کسی پر عدم اعتماد کا فقدان ہو گیا ہے مصالحت کے اس نظام میں تربیت یافتہ لوگوں کو ہونا بہت ضروری ہے میں آپ کے لئے دعا گو ہوں ، پولیس افسران کا کردار بھی اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اہم ہیانصاف فراہم کرکے ہم کسی پر احسان نہیں کر رہے بلکہ لوگوں کا ہم پر حق ہے اور یہ حق ہم نے دینا ہے۔

اس موقع پر پریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہاکہ مجھے آج بہت خوشی ہے کہ منصوبہ کامیابی سے جاری ہے اور اچھے نتائج مل رہے ہیںفیصلہ کرنا نہ صرف ہماری آئینی بلکہ مذہبی ذمہ داری بھی ہے یہ لوگوں کی امانتیں ہیں جو ہم نے ان کو واپس کر نی ہیںقرآن مجید میں بھی اس بات کا ذکر ہے کہ جب تم فیصلہ کرو تو ایما نداری سے کرو۔

پراسیکیوشن اور پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقد مات کی تفتیش کے دوران تمام قانونی تقاضے پورے کر یںمگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دونوں ادارے ہی اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام نہیں دیتے ۔عدالتوں میں آکر معذرت کر لی جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مقدمات کی تفتیش کے دوران پولیس کو شہادتیں بروقت اکھٹی کرنی چائیے مقدمات میں شہادتیں اکھٹی کرنے کی ذمہ داری پولیس کے علاوہ محکمہ صحت کی بھی ہے ۔

پوسٹمارٹم کے دوران رپورٹیں صحیح نہیں دی جاتی گواہان کو پیش کرنا مدعی کی نہیں بلکہ پولیس کی ذمہ داری ہے مقدمات کو وقت پر ختم کر نے میں جیل انتظامیہ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے ۔جیل سپر نٹنڈنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملزمان کو عدالتوں میں ہر صورت پیش کر ے میں دعا گو ہوں کہ یہ منصوبہ کامیاب ہو۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایک وقت تھا جب ریاست اپنے فرائض کی ادائیگی سے پیچھے ہٹ چکی تھی لیکن اب ریاست نے قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے اپنا فرض ادا کرنا شروع کردیا ہے۔ ماڈل کورٹس کا قیام گھریلو تنازعات کے حل میں اہم اقدام ہے،،عدالتوں میں چالان پیش ہونے کے بعد ٹرائل جج کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانونی تقاضے پورے کرے۔