بنگلہ دیشکی پاکستان سے علیحدگی کی بنیادی وجہ علاقائی زبانیں ہیں، سینیٹر بلیغ الرحمان

بنگلا دیش کی عوام کی رائے تھی بنگالی کو قومی زبان ہونا چاہیے، علاقائی زبانیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں،سینیٹر قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف اجلاس سے خطاب سینیٹر ظہیر الدین بابر اور سینیٹر حافظ حمد اللہ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں عدم شرکت پر دونوں سینیٹر ز کے آئینی ترمیمی بلز2017 ڈراپ کر دیئے گئے کمیٹی اجلاس میں علاقائی زبانوں کو قومی درجہ دینے سے متعلق سینیٹر سسی پلیچو اور سینیٹر کریم احمد خواجہ نے بل پیش کئے دونوں بلوں پر اراکین کمیٹی محرکین بلوں و دیگر متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے تفصیلی بحث کے بعد رائے حاصل کی گئی اوراس حوالے سے پبلک ہیئرنگ بھی کروائی گئی،سینیٹر محمد جاوید عباسی علاقائی زبانیں دیگر صوبوں اور بین الاقوامی سطح پر پھیلی ہوئی ہیں انہیں آئینی تحفظ دینا چاہیے، سینیٹر محمد علی سیف میں نے جو تجاویز دیں تھیں وہ بل میں شامل تو کر دی گئیں ہیں مگر ورکنگ پیپر ز آج ملے ہیں ان کا جائزہ لے کر آئندہ اجلاس میں فیصلہ کیا جائے گا،سینیٹر فاروق ایچ نائیک

جمعہ 28 اپریل 2017 21:34

بنگلہ دیشکی پاکستان سے علیحدگی کی بنیادی وجہ علاقائی زبانیں ہیں، سینیٹر ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 28 اپریل2017ء) وزیر مملکت برائے تعلیم سینٹر بلیغ الرحمان نے کہا ہے کہ بنگلادیش کی پاکستان سے علیحدگی کی بنیادی وجہ علاقائی زبانیں ہیں ،بنگلا دیش کی عوام کی رائے تھی بنگالی کو قومی زبان ہونا چاہیے، علاقائی زبانیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

کمیٹی کا اجلا س چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا ۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں علاقائی زبانوں کو قومی درجہ دینے کے متعلق سینیٹر سسی پلیجو اور سینیٹر کریم احمد خواجہ کے بلوں کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ دونوں بلوں پر اراکین کمیٹی محرکین بلوں و دیگر متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے تفصیلی بحث کے بعد رائے حاصل کی گئی اوراس حوالے سے پبلک ہیئرنگ بھی کروائی گئی جس میں ملک بھر سے تعلق رکھنے والے اہل قلم و دانشوروں نے علاقائی زبانوں کو قومی درجہ دینے کی رائے دی تھی ۔

(جاری ہے)

آج وزیر تعلیم ، وزارت قانون اور صوبوں سے بھی اس حوالے سے رائے حاصل کی جائے گی وزیر مملکت برائے وفاقی تعلیم وپیشہ وارانہ تربیت بلیغ الرحمن نے کہا کہ علاقائی زبانیں بہت اہمیت کی حامل ہیں ۔ سانحہ بنگلہ دیش بھی زبان کے مطالبے پر ہوا تھا ۔ بلوچستان میں چھ زبانوں کو درس تدریس کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ۔ علاقائی زبانوں کو فروغ دینا وفاق کیلئے فائدہ مند ہے ۔

کسی بھی صوبے کو تعلیم کیلئے زبان کے انتخاب پر کوئی قدغن نہیںہے ۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی زبان کو قومی درجہ دینے کے حوالے سے وزارت تعلیم کا کوئی کردار نہیں ہے ۔ کچھ ممالک میں ایک سے زائد قومی زبانیں قومی درجہ رکھتی ہیں بہتر یہی ہے کہ ایک طریقہ کار مقرر کیا جائے جو زبان پانچ فیصد کسی صوبے میں بولی جاتی ہے اس کو قومی درجہ دیا جائے ۔ ملک میں 72 علاقائی زبانیں بولی جاتی ہیں ایک پیمانہ بنا کر قومی درجہ دیا جا سکتا ہے ۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان صدیقی کی بھی رائے حاصل کی جائے جس پر قائمہ کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس میں مقتدرہ قومی زبان اکیڈمی آف لیٹر اور دیگر متعلقہ اداروں کی رائے حاصل کر کے فیصلہ کیا جائے گا۔سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ کسی بھی ملک کی آبادی کی ترقی کیلئے مادری زبان کی ترقی ضروری ہے ۔ سینیٹر سسی پلیجو اور ڈاکٹر کریم خواجہ کے بلوں کو کلب کر دیا جائے یہ سات زبانیں جن میں پنجابی ، سندھی ، پشتو، بلوچی ، بروہی ، ہندکو اور سرائیکی شامل ہیں یہ ملکی 85 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتی ہیں ان کو قومی درجہ دیا جائے اور بعد میں باقی زبانوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے ۔

سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ علاقائی زبانیں دیگر صوبوں اور بین الاقوامی سطح پر پھیلی ہوئی ہیں انہیں آئینی تحفظ دینا چاہیے ۔ قائمہ کمیٹی نے سینیٹر ظہیر الدین بابر اور سینیٹر حافظ حمد اللہ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں عدم شرکت پر دونوں سینیٹر ز کے آئینی ترمیمی بلز2017 ڈراپ کر دیئے گئے۔ عدالتوں میں مقدمات کے متبادل حل کے بل 2017 کے حوالے سے سابق چیئرمین سینیٹ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہامیں نے جو تجاویز دیں تھیں وہ بل میں شامل تو کر دی گئیں ہیں مگر ورکنگ پیپر ز آج ملے ہیں ان کا جائزہ لے کر آئندہ اجلاس میں فیصلہ کیا جائے گا۔

جس پر قائمہ کمیٹی نے معاملہ آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا ۔ سینیٹر محمد اعظم خان سواتی کے آئینی ترمیمی بل2017 کے حوالے سے قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ چونکہ گزشتہ اجلاس میں سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد اور ماہر قانون دان ایس ایم ظفر سے اس حوالے سے رائے لینے کافیصلہ کیا گیا تھا وہ بھی آج کے اجلاس میں شرکت نہیں کر سکے ان سے تحریری طور پر رائے طلب کر معاملے کا آئندہ اجلاس میں جائزہ لیا جائے گا۔

سینیٹر اعظم خان سواتی کے ہتک عزت کے حوالے سے ترمیمی بل 2017 کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ قائمہ کمیٹی نے متفقہ طور پ فیصلہ کیا کہ سینیٹر اعظم خان سواتی اور سینیٹر محمد علی سیف بل کا مزید جائزہ لیں ۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ وہ اس بل کے حق میں نہیں ہیں۔ سینئر ایڈوائز وزارت قانون حاکم علی خان نے کہا کہ اس بل کی ضرورت نہیں ہے ۔

کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹر زسلیم ضیاء ،فاروق ایچ نائیک، ڈاکٹر محمد علی خان سیف ، نہال ہاشمی، محمد اعظم خان سواتی ، سسی پلیجو، مختار احمد دھامرا، کریم احمد خواجہ ، تاج حیدر، گیان چند، رحمان ملک، تاج محمد آفریدی، احمد حسن، محمد عثمان خان کاکٹراور کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی کے علاوہ و فاقی وزیر قانون زاہد حامد ، وزیر مملکت وفاقی تعلیم بلیغ الرحمن، سیکرٹری قانون کرامت حسین نیازی، ایڈیشنل ڈرافٹ مین وزارت قانون شیخ سرفراز کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :