فلور ملز مالکان کی جائز مطالبات حل نہ ہونے پر قومی اسمبلی اور سینٹ کے سامنے احتجاجی دھرنے کی دھمکی

ملک میں گندم کے وسیع ذخائر کے باجود نکاسی کیلئے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی،فلور ملزودیگر ایکسپورٹر نے ساڑھے 6 لاکھ ٹن گندم اور آٹا ایکسپورٹ کیاحکومتِ پنجاب اورمحکمہ خوراک پنجاب نے تمام برآمد گندگان کی ادائیگیاں روک رکھی ہیں‘بدرالدین کاکڑ،عاصم رضا، لیاقت علی ، میاں ریاض ،افتخار مٹو و دیگر

جمعرات 27 اپریل 2017 16:05

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 اپریل2017ء) پاکستان فلور ملز ایسوی ایشن سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا ایک اہم اجلاس گزشتہ روز کوئٹہ میں مرکزی چیئرمین بدرالدین کاکڑ کی سربراہی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں چاروں صوبائی چیئرمینوں چوہدری ناصر عبداللہ ، ریاض اللہ خان ، حاجی یوسف آفریدی، سید ظہور آغا، سابق مرکزی چیئرمین عاصم رضا احمد، محمد نعیم بٹ ، میاں محمود حسن، چوہدری افتخار احمد مٹو سابق چیئرمین پنجاب، حاجی محمد یوسف سابق چیئرمین سندھ کے علاوہ فلور ملنگ انڈسٹری کے دیگر نمائندوں نے شرکت کی۔

اجلاس میں ملک میں گندم اور آٹے کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔اور اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ اس وقت ملک میں گندم کے وسیع ذخائر موجود ہیں ، لیکن اس کی نکاسی کیلئے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔

(جاری ہے)

گوداموں میں ُپڑی ہوئی گندم دو سال پرانی ہے اور دن بدن اس کی حالت خراب ہورہی ہے۔ حکومت اربوں روپے سود کی مد میں ادا کررہی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں گندم کے نرخ کم ہونے کی وجہ سے پاکستانی گندم کی مصنوعات کی ایکسپورٹ نہیں ہو پارہی۔

پاکستان کی گندم کی روائیتی مارکیٹ افغانستان پر بھارت اور روسی ریاستیں اپنا قبضہ جمانے کی کو شش کر رہی ہیں۔حکومت پاکستان نے ملک میں موجود فاضل گندم کی کھپت کیلئے سال 2015میں گندم اور آٹے کی ایکسپورٹ پرربیٹ دینے کا فیصلہ کیا۔اس فیصلہ کے تحت فلور ملزاور دیگر ایکسپورٹر نے تقریباً ساڑھے چھ لاکھ ٹن گندم اور آٹا ایکسپورٹ کیااور ملک کیلئے قیمتی زرِ مبادلہ حاصل کیا۔

گندم اور آٹے کی ایکسپورٹ کیلئے مروجہ طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ اور تمام قواعد و ضوابط پر عمل کیا گیا۔ حکومتِ پاکستان اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کی وضع کردہ پالیسی کے مطابق لوکل ڈالر سرنڈرکرنے کے بعد مختلف اشیأ کی ایکسپورٹ ہو سکتی ہے۔اسی طریقہ کار کے تحت چینی ، گھی اور سیمنٹ افغانستان برآمد کی جارہی ہے۔صوبہ پنجاب ،صوبہ خیبر پختونخواہ اور صوبہ بلوچستان کی فلور ملز نے اسی پالیسی کے تحت آٹا اور گندم کی ایکسپورٹ کی۔

لیکن حکومتِ پنجاب اورمحکمہ خوراک پنجاب نے ان تمام ایکسپورٹ گندگان کی ادائیگیاں روک رکھی ہیں۔واضع رہے گندم اور آٹے کی ایکسپورٹ وفاقی حکومت اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کے وضع کردہ قوائد و ضوابط کے مطابق کی گئی۔حکومت پنجاب اور محکمہ خوراک پنجاب کی جانب سے جاری کردہ پالیسی میں بھی لوکل ڈالر سرنڈرکرنے کی شق پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔

جب ایکسپورٹ مکمل ہو چکی تو ادائیگیاں روک دی گئیں جس کی وجہ سے صوبہ پنجاب ،صوبہ خیبر پختونخواہ اور صوبہ بلو چستان کی فلور ملز مالکان کا اربوں روپے کا سرمایہ داؤ پر لگ گیا ہے۔یہ بات قابلِ ڈکر ہے کہ گزشتہ سال لوکل ڈالر سرنڈر کر کے جو ایکسپورٹ کی گئی تھی اس پرکسی قسم کا اعتراض نہیں لگایا گیا تھا اورپنجاب حکومت کی جانب سے تمام ادائیگیاں کر دی گئی تھیں، سندھ حکومت نے بھی اس سال تمام ادائیگیاں کر دی ہیں صرف پنجاب حکومت کی جانب سے مذموم عزائم تکمیل کیلئے حکومت پاکستان کی پالیسی کے خلاف گندم اور آٹے کی ایکسپورٹ پر مختلف ہتھکنڈے اپنائے جارہے ہیں۔

افغانستان کی ایکسپورٹ بند کرنے کے بعد وہی ایکسپورٹ 170ڈالر ربیٹ سے سمندری راستے سے ایکسپورٹ کرنے کی پالیسی بنا کر کرپشن کا مال بنانے اور کھربوں روپے مالیت کی انڈسٹری بند کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ہم اپنے حقوق کے حصول اور فلور ملنگ انڈسٹری کی بقأ کیلئے آخری حد تک جائیں گے ۔فلور ملز کی جانب سے اب تک کی گئی ایکسپورٹ میں اب تک کوئی بدعنوانی سامنے نہیں آئی۔

فلور ملنگ انڈسٹری پاکستان کے عوام کو ان کی بنیادی غذا کی فراہمی میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے لیکن حکومت نے اس بنیادی اور اہم انڈسٹری کو لاوارث چھوڑ دیا ہے۔حکومت کی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک بھر میں آدھے سے زیادہ انڈسڑی بند ہے۔لاکھوں ٹن فاضل گندم کے ذخائر خراب ہورہے ہیں۔ ملک کی اہم زرعی پیداوار کیلئے حکومت کی کوئی مستقل پالیسی نہیں ہے۔

ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پنجاب حکومت کی جانب سے فلور ملز مالکان کی ایکسپورٹ کی مد میں روکی جانے والی ادائیگیاں فی الفور کی جائیں․170ڈالر ربیٹ کے ساتھ سمندری اور زمینی راستے سے گندم اور گندم کی مصنوعات کی ایکسپورٹ کی پالیسی بنائی جائے۔ہم نے بہت مشکل سے دوبارہ افغانستان کی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنائی ہے، ہم کسی شخص کی مالی منعفت کیلئے افغانستان کی ایکسپورٹ کو بند نہیں ہونے دیں گے اس سے ہماری انڈسٹری کا مستقبل وابستہ ہے۔

ہم اس ملک کے شہری ہیں اور باعزت طریقے سے اپنا کاروبار کر رہے ہیں ۔ ہمیں ہمارا حق باعزت طریقے سے دیا جائے۔گزشتہ روزکے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومت ہمارے جائز مطالبات تسلیم نہیں کرتی اور فلور ملز کی ایکسپورٹ کی مد میں روکی جانے والی رقوم کی ادائیگیاں فوری کرنے کے اقدامات نہیں کرتی اور سمندری راستے کے ساتھ ساتھ زمینی راستے سے گندم او گندم کی مصنوعات کی ایکسپورٹ کی اجازت نہیں دیتی توفلور ملنگ انڈسٹری اپنے جائز مطالبات پورے ہونے تک قومی اسمبلی اور سینٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا دے گی۔ او ر اگر ہمیں ملک گیر ہڑتال کرنی پڑی تو ہم اس سے بھی گریز نہیں کریں گے۔