آڈٹ اعتراضات مفروضوں یا نجی کمپنیوں کی سروے رپورٹس کی بنیاد پر نہیں ٹھوس شواہد اور محکمانہ آڈٹ کمیٹیوں کی سفارشات کو مد نظر رکھ کربنائے جائیں، عدالتوں میں کیسز محکمانہ غلطیوں کی وجہ سے جاتے ہیں، اس کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، پبلک اکائونٹس کمیٹی

بدھ 26 اپریل 2017 14:49

آڈٹ اعتراضات مفروضوں یا نجی کمپنیوں کی سروے رپورٹس کی بنیاد پر نہیں ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 اپریل2017ء) پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے کہا ہے کہ آڈٹ حکام کو آڈٹ اعتراضات مفروضوں یا نجی کمپنیوں کی سروے رپورٹس کی بنیاد پر نہیں بلکہ ٹھوس شواہد اور محکمانہ آڈٹ کمیٹیوں کی سفارشات کو مد نظر رکھ کربنانے چاہئیں ، ایف بی آر اور آڈٹ سمیت تمام سرکاری اداروں کے افسران اگر اپنا کردار بہتر انداز میں ادا کریں تو معاملات میں بہتری آ سکتی ہے۔

اجلاس بدھ کو پی اے سی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا ۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان جنید انوار چوہدری، شیخ روحیل اصغر، محمود خان اچکزئی، ارشد خان لغاری، راجہ جاوید اخلاص، شیخ رشید ، شاہدہ اختر علی ،سردار عاشق حسین گوپانگ ، ڈاکٹر عذرا فضل ، شفقت محمود ، رانا افضال حسین ، سینیٹر چوہدری تنویر خان اور سینیٹر محمد اعظم خان سواتی سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس کے آغاز پر سینیٹر چوہدری تنویر خان نے کہاکہ آڈٹ اعتراضات کی کتابوں میں غیر ضروری طور پر اداروں اور حکومت کے کردار کو اچھالا جاتا ہے، ایسے معاملات پی اے سی کی سطح پر نمٹائے جانے چاہیے، پی اے سی کے سامنے مکمل چھان بین کے بعد معاملات آنے چاہئیں۔ آڈیٹر جنرل حق نواز نے کہاکہ ہمارا کام بے قاعدگیوں کی نشاندہی ہے ۔ ادارے جب متعلقہ دستاویزات فراہم کرتے ہیں تو آڈٹ اعتراض دور کیاجاتا ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ذیلی ادارے کسٹم کی 2013-14 ء کی آڈٹ رپورٹ کاجائزہ لیتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر محمد ارشاد نے کہا کہ ریکوریوں کی صورتحال میں بہتری آئی ہے۔ ریونیو ریکوری میں ہماری موجودہ کا رکردگی 99.99 فیصد ہے۔ سردار عاشق حسین گوپانگ نے بطور کنوینر ارکان سے کہا کہ آڈٹ اعتراضات کے جائزے کے دوران محکمہ کی آڈٹ کمیٹی ( ڈ ی اے سی)کی سفارشات کو مد نظررکھ کر بات کی جائے۔

انہوں نے کہاکہ عدالتوں میں کیسز محکمانہ غلطیوں کی وجہ سے جاتے ہیں۔ غلطیوں کے مرتکب محکموں کے افسران کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہاکہ ٹیکس گزاروں اور محکمے کے قوانین کے بارے میں اپنی اپنی تشریحات ہوتی ہیں۔ اس بناء پر معاملات عدالتوں میں جاتے ہیں ۔ اس بناء پر افسران کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کچھ معاملات میں ملوث محکمے کے 49 لوگوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔

اعظم سواتی نے کہاکہ صرف چھوٹے عملے کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ جنید انوار چوہدری نے کہاکہ ادارے کا کلرک بادشاہ ہوتا ہے۔ ایک اور آڈٹ اعتراض کاجائزہ لیتے ہوئے شفقت محمود نے کہاکہ اسلام آباد کی دکانوں پر درآمدی اور بغیر ڈیوٹی کے سگریٹ پڑے ہوئے ہیں۔ ایف بی آر نے کہا کہ محکمہ باقاعدہ کارروائی کرتاہے۔ گوداموں پر چھاپے مارے جاتے ہیں ۔

دکانداروں کے خلاف کارروائی کی جائے تو ہنگامہ کھڑا ہو جاتاہے ۔گزشتہ سال گٹکا کی فروخت کے خلاف کارروائی کی گئی تو حیدر آباد میں ہمارے دو اہلکار قتل کردیئے گئے۔ پی اے سی کے استفسار پر کسٹم کی طرف سے بتایاگیا کہ کراچی بندرگاہ پر روزانہ پانچ ہزار کنٹینر آتے ہیں۔ سب کی سکیننگ نہیں کی جاسکتی۔ سینیٹر چوہدری تنویر خان نے کہاکہ سگریٹ ویسے ہی مضر صحت ہے۔

گلی محلے کی دوکان پر بھی چھاپے مار ے جائیں تاکہ ریونیو میں اضافہ ہو۔ محکمہ کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ سروے کی بنیاد پر آڈٹ اعتراض نہیں بننے چاہئیں بلکہ مکمل چھان بین کے بعد آڈٹ اعتراض بنائے جائیں۔ چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر ارشاد نے کہا کہ مقامی پیداوار پر 100 فیصد ٹیکس ریونیو وصول کیاجارہا ہے۔ آڈٹ نے اعداد وشمار نہ جانے کہاں سے لئے ہیں۔

ہم ان اعداد وشمار سے اتفاق نہیں کرتے۔ ورلڈ بینک کے ساتھ مل کر ہم ایک جدید ٹریکنگ سسٹم لگا رہے ہیں جس سے امورکافی حد تک بہتر ہوجائیں گے۔ چیئرمین پی اے سی سیّد خورشید احمد شاہ نے کہا کہ آڈٹ کو مفروضوں کی بنیاد پر آڈٹ اعتراضات نہیں بنانے چاہئیں۔ چوہدری تنویر خان نے کہاکہ ہمارے افسران کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ سیّد خورشید شاہ نے کہاکہ ملک میں بیرون ممالک سے موبائل فون ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر آرہے ہیں، اداروںکو اپنی کارکردگی کی طرف توجہ دینی چاہیے۔