پاناما لیکس پر جے آئی ٹی کی تشکیل قانون کے مطابق ہو گی، اسحاق ڈار

ڈان لیکس کے معاملے پر طارق فاطمی کو ہٹایا نہیں جا رہا صرف ان کا عہدہ تبدیل کرنے کی بات کی جا رہی ہے،پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا، ہما ری حکومت ‘گوادر کو دبئی میں تبدیل’ کرنے کے قریب تھی لیکن پورے منصوبے کو پٹڑی سے اتار دیا گیا، بلوچستان کی معاشی خومختاری کے لیے مختلف منصوبوں پر کام کرر ہے ہیں ، لوڈ شیڈنگ 2018 تک تاریخ کا حصہ بن جائے گی ، امریکا افغان قیام امن میں پاکستانی مفاد بھی مقدم رکھے ، و اشنگٹن میں پریس کانفرنس

بدھ 26 اپریل 2017 13:43

پاناما لیکس پر جے آئی ٹی کی تشکیل قانون کے مطابق ہو گی، اسحاق ڈار
واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 اپریل2017ء) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر جے آئی ٹی قانون کے مطابق بنے گی اور اس میں وزارت خزانہ کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔واشنگٹن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس پر جے آئی ٹی کی تشکیل قانون کے مطابق ہو گی اور اس میں وزارت خزانہ کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔

جے آئی ٹی میں 6 اداروں کے افسران شامل ہوں گے جب کہ اسٹیٹ بینک اور ایس ای ایس پی وزارت خزانہ کے ماتحت ادارے نہیں ہیں۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ امریکا کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائز مک ماسٹر سے ملاقات مفید رہی اور مک ماسٹر نے دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو سراہا۔

(جاری ہے)

مک ماسٹر کے ساتھ دفاع، مسئلہ کشمیر، بھارت اور افغانستان کے ساتھ مسائل پر بھی بات ہوئی۔

پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا، سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج نے کارروائیاں کی ہیں، چاہتے ہیں کہ پاکستانی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو، ضرب عضب کی کامیابی کے بعد آپریشن ردالفساد کامیابی سے جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہوا، جنرل (ر) راحیل شریف کی مسلم ممالک کے فوجی اتحادکیسربراہ کی حیثیت سے تعیناتی میں کوئی ابہام نہیں، وہ ریٹائر ہو چکے ہیں اور اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ گزشتہ 4 سالوں میں پاکستان کی کرنسی مستحکم رہی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں صرف 5 فیصد گراوٹ آئی۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے کنٹری ڈائریکٹر سے بات چیت مفید رہی، اب آئی ایم ایف کے مزید پروگرام کی ضرورت نہیں جب کہ بڑی امریکی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش مند ہیں۔ آئندہ بجٹ میں کوئی نئے ٹیکس نہیں لگانے جا رہے، بجٹ میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کریں گے۔

ڈان لیکس کے حوالے سے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ڈان لیکس پر تحقیقاتی رپورٹ وزیراعظم نواز شریف کو پیش کی جا چکی، رپورٹ کی سفارشات پرعمل درآمد کیا جائے گا، رپورٹ کیسے لیک ہوئی اس پر انکوائری ہونی چاہیئے، ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں طارق فاطمی کو ہٹانے کی سفارش نہیں کی گئی بلکہ طارق فاطمی کے عہدے میں تبدیلی پر بات ہو رہی ہے تاہم ان کی تبدیلی کا فیصلہ انتظامی ہو گا۔

امریکا میں پاکستانی سفارت خانے کے معاشی فورم سے خطاب کرتے ہوئے اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ چینی کمپنیاں پاک-چین اقتصادی راہداری میں سرمایہ کاری کررہی ہیں جنمھیں ٹیکس میں بڑی مراعات ہوں گی لیکن انھوں نے دعویٰ کیا کہ ‘اس مخصوص فیصلے’ سے ملک کی معیشت کو نقصان نہیں ہوگا۔اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ’میں نے ورلڈ بینک کے صدر جم یانگ کم سے پورے بلوچستان کو روشن کرنے کے منصوبے پر بات چیت کی اور ان کا جواب مثبت تھا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے انھیں صوبے کے دورے کی دعوت دی تھی جس کو انھوں نے قبول کیا’۔وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ ‘میں نے انھیں یہ بھی کہا ہے کہ جب یہ تیار ہوگا تو ہم اس سلسلے کے پہلے منصوبے کا افتتاح ان سے کروانا چاہیں گے اور میرا خیال ہے کہ چیزیں مثبت ہوں گی’۔اسحٰق ڈار نے کثیر تعداد میں پاکستان نڑاد امریکی شرکا کو بتایا کہ جب 1999 میں ملک میں فوجی مداخلت ہوئی تو پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت ‘گوادر کو دبئی میں تبدیل’ کرنے کے قریب تھی لیکن پورے منصوبے کو پٹڑی سے اتار دیا گیا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم کراچی سے گوادر تک متوازی مشرق وسطیٰ تعمیر کرنا چاہتے تھے لیکن مداخلت نے ہمیں ایسا کرنے سے روکا’۔وفاقی وزیر نے وہاں پر موجود بلوچ شرکا سے اتفاق کیا کہ اگر بلوچوں کو ان کے حقوق دیے جاتے توصوبہ اپنی صلاحیتوں کو پا لیتا اور وہاں پر موجود شورش بھی نہیں ہوسکتی تھی۔انھوں نے کہا کہ حکومت ملک کے دوسرے حصوں کی طرح بلوچستان کی معاشی خومختاری کے لیے مختلف منصوبوں پر کام کررہی ہے اور امید ظاہر کی کہ سی پیک صوبے کے لیے نیا آغاز ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ چینی کمپنیوں کو ٹیکس میں چھوٹ دینے کے خاص فیصے سے قبل حکومت نے ‘لاگت اور منافع’ کا جائزہ لیا تھا۔انھوں نے کہا کہ ‘ہم اس طرح کے منفی باتیں سن رہے ہیں لیکن یہ دوطرفہ انتظامات ہیں’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘یورپین یونین نے اپنے اراکین کے لیے ٹیرف میں کمی کررکھی ہے، امریکا اپنے پڑوسیوں کو اسی طرح کی چھوٹ دیتا ہے اور اگر ہم اسی طرح کی آسانیاں چین کو دے رہے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے’۔

انھوں نے کہا کہ مفت کا کھانا نہیں ملتا'وہ 56 ارب ڈالر سرمایہ کاری کررہے ہیں جس کے جواب میں ہم نے کچھ چھوٹ کی پیش کش کی ہی'۔وفاقی وزیر نے کہا کہ چین عظیم دوست ہے اور منفی باتوں کا مقصد 'سی پیک کے منصوبے کو کمتر' ثابت کرنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘سی پیک نہ صرف دو طرفہ منصوبہ ہے بلکہ بنیادی طور پر پورے خطے کے لیے ایک وژن ہے اور جلد ہی تمام ہمسایہ ممالک تک پھیلا دیا جائے گا،۔

اسحٰق ڈار نے چینی کمپنیوں کو سالانہ 150 ارب روپے کی چھوٹ دینے کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ ‘یہ چھوٹ چینی کمپنیوں کو سی پیک میں 56 ارب ڈالر کی سرمایہ پر دی جارہی ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘سی پیک کے حوالے سے غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں 'چین پیسہ حکومت کو نہیں دے رہا ہے اور اس کے مالی فوائد نجی شعبوں توانائی اور انفراسٹرکچر کے لیے مہیا کیے جارہے ہیں'۔

انتخابات کے قریب آتے ہی مقبول پالیسیاں بنانے سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچنے کے حوالے سے ورلڈ بینک کے خدشات پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا ایسا کچھ کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ ‘ہم نے گزشتہ چند برسوں کے دوران جو حاصل کیا ہے اس کو صرف انتخابات میں جیت پر ضائع کرنے پر یقین نہیں رکھتے’۔وضاحت کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ حکومت کی پالیسی نہیں ہے،میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ صرف مقبولیت کے لیے ہم آنے والے بجٹ میں ایسے اقدامات نہیں کریں گی'۔

اسحٰق ڈار کے مطابق ‘لوڈ شیڈنگ 2018 تک تاریخ کا حصہ بن جائے گی، جس کے لیے حکومت منصوبوں کو تیزی سے مکمل کررہی ہے۔ورلڈ بینک کی جانب سے مضبوط روپے سے پاکستان کی افزائش پر خدشات کے حوالے سے ایک اور سوال پر انھوں نے کہا کہ یہ اچھی معاشی پالیسی کی ایک علامت ہے جبکہ حکومت اور اسٹیٹ بینک اس میں تبدیلی کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔وزیرخزانہ نے کہا کہ پاکستان اوپن مارکیٹ پالیسی کو جاری رکھے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ’سرمایہ کار خوش ہیں کہ ہمارا ملک مستحکم ہے، مشرق وسطیٰ کی کرنسی کئی دہائیوں سے مستحکم ہے اور ان کی معیشتوں پر کوئی برعکس اثر نہیں پڑا تو پاکستان کی مستحکم کرنسی اس کی بڑھوتری کو نقصان کیوں پہنچائے گی’۔اسحٰق ڈار نے اعتراف کیا کہ روپے کی قدر میں استحکام اور تیل کی بڑھتی قیمتوں کے باعث پاکستان کی برآمدات میں کمی آئی ہے لیکن حکومت اس کو درست کرنے کے لیے مراعات کی پیش کش کر رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ توانائی کے منصوبے چلتے رہیں گے، نئے بجٹ میں نئے ٹیکس لگانے کی تجویز زیر غور نہیں ہی