سینئر سول سرونٹس بہترین خدمت اور قائدانہ صلاحیتوں سے اپنے جونیئرز کیلئے رول ماڈل بنیں،کراچی میں امن برقرار رکھنے میں مدد کیلئے صوبائی حکومت کو رینجرز کی خدمات فراہم کی گئیں

ْوزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا نیشنل مینجمنٹ کورس کے شرکاء سے خطاب اورسوالوں کے جواب

منگل 25 اپریل 2017 22:31

سینئر سول سرونٹس بہترین خدمت اور قائدانہ صلاحیتوں سے اپنے جونیئرز ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 اپریل2017ء) وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سینئر سول سرونٹس پر زور دیا ہے کہ وہ بہترین خدمت اور قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے جونیئرز کیلئے رول ماڈل بنیں۔ منگل کو یہاں 106 ویں نیشنل مینجمنٹ کورس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے پبلک سیکٹر آرگنائزیشن کیلئے کام کے ماحول کو بہتر بنانے کے سلسلے میں اقدامات پر زور دیا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ خدمت کے جذبہ سے سرشار اہل، موثر اور مخلص سرکاری ملازمین قیادت کے وژن کو حقیقت میں تبدیل کرنے اور ملک کو درپیش متعدد چیلنجوں سے باہر نکالنے کیلئے فیصلہ کن کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ایسے وقت میں جب سول سروس کو انسانی وسائل کے سنجیدہ چیلنجوں، صلاحیت سازی کے ایشوز اور عوام سے اعتماداور احترام کے تقاضوں کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

سینئر بیورو کریٹس آگے آئیں اور اپنی صلاحیتوں میں عوام کا اعتماد بحال کرتے ہوئے اپنی کارکردگی میں اضافہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت سرکاری ملازم ہر سول سرونٹ کا یہ فرض ہے کہ وہ قانون کے تحفظ اور پبلک کی خدمت کرتے ہوئے متوازن، غیر متعصب اور روا داری کے جذبے کا اختیار کرے۔ ملک کی مجموعی صورتحال بالخصوص سیکورٹی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ حالیہ برسوں میں تمام سٹیک ہولڈرز بشمول سویلین حکومتوں، مسلح افواج، پولیس، سول آرمڈ فورسز اور انٹیلی جنس اداروں کی مربوط کوششوں کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔

سیکورٹی تعاون کی راہ میں ہم نے کبھی سیاسی تفریق نہیں ہونے دی اور ہمیشہ صوبائی حکومتوں سے ان کی سیاسی وابستگی کے قطع نظر زیادہ سے زیادہ تعاون کیا۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اس کے برخلاف کہ کیا کچھ اجاگر کیا جاتا ہے یا کیا دعویٰ کیا جاتا ہے سیکورٹی صورتحال میں بہتری مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے جس کا سہرا تمام سٹیک ہولڈرز کو جاتا ہے۔

سب سے پہلے اس کا سہرا ملک کے اندر یا سرحد پر دشمن سے لڑنے والے فوجی اور پولیس کو جاتا ہے جو گلی میں کسی بھی ملزم یا دہشت گرد کا مقابلہ کرتا ہے، سیکورٹی صورتحال میں بہتری کا کریڈٹ عام شہریوں کو جاتا ہے جسے انتہا پسندوں کی مکروہ سرگرمیوں سے نقصان پہنچتا ہے تاہم وہ وطن عزیز کی سیکورٹی کیلئے ہمیشہ غیر متزلزل کمٹمنٹ کا مظاہرہ کرتا ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ ایک کامیاب باب ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے کمی آئی۔ 2010ء میں 2 ہزار سے زائد دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔ گزشتہ سال یہ اعداد و شمار 785 تھے جن میں سے 285 واقعات میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ماضی اور موجودہ سیکورٹی صورتحال اور مختلف پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے مکمل سول و عسکری مفاہمت کے ساتھ مسئلے کا پرامن حل تلاش کرنے کیلئے انتہا پسندوں کے ساتھ مذاکرات کا آپشن اختیار کیا اور کسی نتائج کیلئے مذاکراتی عمل کو 8 ماہ دیئے اور جب مذاکرات کا آپشن ختم ہو گیا تو پورے ہوم ورک کے ساتھ فوجی آپریشن شروع کیا گیا اور داخلی سیکورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے موثر، مربوط سیکورٹی میکنزم اختیار کیا گیا۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان تیار کئے جانے کے بعد عملی اقدامات کئے گئے اور نہ صرف مختلف انٹیلی جنس اداروں بلکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان باہمی انٹیلی جنس شیئرنگ کیلئے ایک موثر میکنزم لایا گیا۔ نیشنل مینجمنٹ کورس کے اختتام کے بعد سوال و جواب کا سیشن ہوا جہاں شرکاء نے سیکورٹی سے متعلق مختلف سوالات پوچھے۔

کراچی آپریشن میں رینجرز کے کردار اور باقاعدہ وقفوں کے ساتھ ان کے قیام میں توسیع کے متعلق سوال پر وزیر داخلہ نے کہاکہ کراچی میں امن برقرار رکھنے میں مدد کیلئے صوبائی حکومت کو رینجرز کی خدمات فراہم کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ امن و امان ایک صوبائی معاملہ ہے تاہم وفاقی حکومت نے امن و استحکام برقرار رکھنے میں صوبائی حکومتوں کو ہمیشہ ہر ممکن مدد فراہم کی جہاں تک رینجرز کے قیام کامعاملہ ہے وفاقی حکومت قانون کے تحت قانونی راستہ اختیار کرے گی۔

سرحدی نظام اور سرحدی نقل و حمل کو باقاعدہ بنانے سے متعلق وزیر داخلہ نے کہا کہ مغربی سرحد پر موثر نگرانی کے میکنزم کے ساتھ باڑ لگانے سے شرپسند عناصر کی نقل و حمل کی روک تھام میں نمایاں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے مسلسل سرحدی نقل و حمل کے باعث مغربی سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا ہے جب انہوں نے وزیر داخلہ کے طور فرائض سنبھالے تو صرف طورخم کی سرحد پر یومیہ 30 تا 50 ہزار افراد کی نقل و حمل تھی۔

موجودہ حکومت نے سرحد عبور کرنے کے حوالے سے سفری دستاویزات کو لازمی قرار دیتے ہوئے اس رجحان پر قابو پایا۔ انہوں نے کہا کہ 2020ء تک موجودہ دو خارجی کراسنگ پوائنٹ کے علاوہ مغربی سرحد پر مزید چار کراسنگ پوائنٹ قائم کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ دو تا تین سالوں میں مغربی سرحدوں پر واچ ٹاورز، کیمروں اور مومنٹ ڈی ٹیکشن سنسرز کے ساتھ موثر سرحدی نگرانی کا نظام قائم ہو جائے گا۔