سندھ اسمبلی ،مالی سال 2016-17 کی پہلی اور دوسری سہ ماہی بجٹ پر عمل درآمد سے متعلق رپورٹ پر بحث جاری رہی پانچ ارکان نے حصہ لیا

افسوس کی بات ہے کہ ایوان میں بجٹ پر بحث ہو رہی ہے لیکن ہاؤس میں نہ وزراء موجود ہیں اور نہ آفیسر گیلری میں آفیسر ہیں ، نصرت سحر عباسی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت گذشتہ کئی سالوں سے مالی سال کے بجٹ میں اپوزیشن کے ارکان کے حلقوں کے لیے بجٹ اسکیمیں ضرور رکھتی ہے لیکن فنڈز جاری نہیں کیے جاتے، جمال احمد ودیگرکا سندھ اسمبلی میں خطاب

پیر 24 اپریل 2017 23:19

سندھ اسمبلی ،مالی سال 2016-17 کی پہلی اور دوسری سہ ماہی بجٹ پر عمل درآمد ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 اپریل2017ء) سندھ اسمبلی میں پیر کو مالی سال 2016-17 کی پہلی اور دوسری سہ ماہی بجٹ پر عمل درآمد سے متعلق رپورٹ پر بحث جاری رہی ، جس میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے پانچ ارکان نے حصہ لیا ۔ ایم کیو ایم کے رکن جمال احمد نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت گذشتہ کئی سالوں سے مالی سال کے بجٹ میں اپوزیشن کے ارکان کے حلقوں کے لیے بجٹ اسکیمیں ضرور رکھتی ہے لیکن فنڈز جاری نہیں کیے جاتے ۔

انہوںنے کہاکہ میرے حلقے میں سب سے زیادہ روڈ تباہ حال ہیں ۔ وفاقی حکومت کی جانب سے گرین لائن منصوبہ پر کام ہو رہا ہے ، جس کی وجہ سے ہر طرف گردو غبار اور دھول مٹی کا طوفان برپا ہے ۔ کٹی پہاڑی سے لے کر نصرت بھٹو کالونی تک سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں ۔

(جاری ہے)

گٹر ابل رہے ہیں اور نالوں کے گرد چار دیواری بھی نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم کا ووٹ بینک ختم ہو گیا ہے ۔

ان کی یہ غلط فہمی ہے ۔ ایم کیو ایم کا ووٹ بینک کبھی ختم نہیں ہو سکتا ۔ آپ ہمیں پیسے دیں یا نہ دیں ۔ مینڈیٹ ہمارا قائم رہے گا ۔ لوگ مر جائیں گے لیکن ووٹ ایم کیو ایم کو ہی دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نہ ہمارے ایم این اے ، نہ ہمارے ایم پی اے اور نہ ہی منتخب میئر کو کوئی فنڈز دے رہی ہے ۔ نہ ہی وہ کوئی اختیار دینے کے لیے تیا رہے ۔

کراچی میں کوئی کام کیے بغیر پیپلز پارٹی کس طرح اس شہر سے ووٹ حاصل کر سکتی ہے ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کی خاتون رکن نصرت سحر عباسی نے کہا کہ یہ اچھی روایت ہے کہ بجٹ کی سہ ماہی رپورٹ پر ہم بحث کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں رقومات تو رکھ دی جاتی ہیں لیکن مختلف سرکاری محکموں نے مختص کردہ فنڈز میں سے کہیں 30 فیصد ، کہیں 40 اور کہیں 50 فیصد تک فنڈز استعمال ہو ئے ہیں ۔

افسوس کی بات ہے کہ ایوان میں بجٹ پر بحث ہو رہی ہے لیکن ہاؤس میں نہ وزراء موجود ہیں اور نہ آفیسر گیلری میں آفیسر ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ 4 سال سے ایک ہی طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے گذشتہ سال مالی بجٹ پیش کرتے ہوئے اسے پریکٹیکل بجٹ قرار دیا تھا لیکن نئے سی ایم کے آنے کے باوجود ان کے کسی اعلان پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آ رہا ۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ کی رقومات ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونے کے بجائے لوگوں کی جیبوں میں جا رہی ہیں ۔ نصرت سحر عباسی کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس لوگوں کو ملازمتیں دینے کے لیے کچھ نہیں اور جب لوگوں کو نوکری نہیں ملتی تو بعض لوگ یہ بھی کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ چلو سائیں کے پاس چلتے ہیں ، نوکری تو مل نہیں کوئی ٹھیکا ہی پکڑ لیتے ہیں ۔ زندگی بن جائے گی ۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں بیڈ گورننس کا دور دورہ ہے ۔ پیپلز پارٹی بجلی کی لوڈشیڈنگ پر تو دھرنے دے رہی ہے ۔ وہ پانی کی قلت اور کرپشن کے خلاف کیوں دھرنا نہیں دیتی ۔ انہوں نے کہا کہ کھربوں روپے کی کرپشن کرنے والے اس ملک میں علاج کرانا بھی پسند نہیں کرتے اور کمر کے درد کا علاج بھی بیرون ملک کراتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورت حال دیکھ بینظیر کی روح بھی تڑپتی ہو گی ۔

ایم کیو ایم کے رکن ظفر احمد کمالی نے کہا کہ گذشتہ سال 765 روپے کا بجٹ تھا ، جس پر ہم بحث کر رہے ہیں ۔ نیا بجٹ جب بھی آتا ہے ، حزب اقتدار کی بینچوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی منت اور مرادیں پوری ہو جاتی ہیں اور بجٹ آنے کے بعد ا ن کے پاس چمکتی دمکتی نئی نئی گاڑیاں نظر آتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پورا سندھ خواہ وہ شہری علاقے ہوں یا دیہی علاقے ، مسائل سے دوچار ہیں اور حکومت کو عوامی مسائل حل کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں ۔

انہوں نے کہا کہ میرپورخاص میں اپوزیشن کے ارکان کے حلقوں میں کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا جا رہا ۔ سندھ حکومت بجٹ میںمختص کردہ رقومات صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے خرم شیر زمان نے کہا کہ بجٹ دستاویزات کو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ میں ہر طرف کرپشن کا دور دورہ ہے ۔ سب سے زیادہ اگر کسی محکمے کی خراب کارکردگی ہے تو وہ وزارت بلدیات ہے ۔

جس نے اس حکومت کی ساکھ کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ اپنے محصولات کی وصولی میں ناکام ہو چکی ہے ۔ بجٹ میں 299.7 روپے کی وصولی کا ہدف مقرر کیا گیا تھا ، جس میں صرف 38 ارب روپے کی وصولی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں ڈائریکٹ ٹیکسز پر زور دیا جائے ۔ ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے گریز کیا جائے کیونکہ اس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑتا ہے ۔

مسلم لیگ (فنکشنل) کے سعید خان نظامانی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اپوزیشن کے حلقوں کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے ۔ جن حلقوں سے اپوزیشن کے ارکان منتخب ہو کر آئے ہیں ، ان حلقوں میں لوگوں کے مسائل کے حل اور ترقیاتی منصوبے شروع کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے ، جو سراسر ناانصافی اور زیادتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صوبے میں بسنے والے تمام لوگوں کو ایک نگاہ سے دیکھے ۔