اختلافی نوٹ رائے ہو سکتی ہے لیکن فیصلہ وہی ہے جو تین ججوں نے سنایا ،نہ ماننے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جائے ‘ رانا ثناء اللہ

عمران خان ،ایک مکار شخص سپریم کورٹ کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرنے سے انکاری ،اختلافی نوٹ کو بہانہ بنا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں کوئی یہ نہ سمجھے دھمکیوں ،پراپیگنڈے سے ہتھیار ڈال دیں گے، اصل فیصلہ عوام 2018کے انتخابات میں کرینگے ‘ پنجاب اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو

پیر 24 اپریل 2017 18:44

اختلافی نوٹ رائے ہو سکتی ہے لیکن فیصلہ وہی ہے جو تین ججوں نے سنایا ،نہ ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 اپریل2017ء) صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور رانا ثناء اللہ خاں نے کہا ہے کہ اختلافی نوٹ رائے ہو سکتی ہے لیکن فیصلہ وہی ہے جو تین ججوں نے سنایا ہے ،عمران خان اور ان کیساتھ ایک مکار شخص سپریم کورٹ کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور اختلافی نوٹ کو بہانہ بنا کر آگے بڑھنا چاہتے ہے،فیصلے کو نہ ماننے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جائے ،کوئی یہ نہ سمجھے کہ دھمکیوں اور پراپیگنڈے سے ہم ہتھیار ڈال دیں گے، اصل فیصلہ عوام 2018ء کے انتخابات میں کریں گے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز پنجاب اسمبلی کے احاطہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ رانا ثنااللہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا یہ موقف تھا کہ پانامہ لیکس معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے تاکہ وہ صاف اور شفاف تحقیقات کرے لیکن سپریم کورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانے پر دھمکیاں دی گئیںاور عوام دل گرفت ہیں کہ ہمارے اداروں کو دبائو میں لایا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کوئی ایک بھی نکات ایسا نہیں جس میں میاں نواز شریف کا ذکر ہو بلکہ 7سوالات میاں محمد شریف کے کاروبار سے متعلق ہیں اور 4سوال حسن اور حسین نواز کے کاروبار سے متعلق ہیں اور نواز شریف، مریم نواز شریف، کیپٹن (ر) صفدر اور اسحاق ڈار سے متعلق اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔رانا ثنااللہ نے کہا کہ جو انسان اپنا جواب دینے کے لئے دنیا میں موجود نہ ہو اس کے لئے قانون بڑا واضح ہے البتہ جو موجود ہیں انہیں تمام شہادتیں پیش کرنی چاہئیں اور کی بھی گئی ہیں جبکہ نواز شریف کے بچوں سے جو سوالات پوچھے گئے ہیں وہ ان کا جواب دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) سپریم کورٹ کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرتے ہیں اور عمران خان نے بھی پوری قوم سے ایک بار نہیں درجنوں بار یہ کہا ہے کہ جو بھی فیصلہ ہو گا اسے من و عن تسلیم کیا جائے گا لیکن اب عمران خان، اس کیساتھ ایک شیطان اور ایک مکار مولوی سپریم کورٹ کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک حصے کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں، وہ اس کو رد کر رہے ہیں، یہ توہین عدالت ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی توہین ہے ۔

عمران خان ایک اختلافی نوٹ کو بہانہ بنا کر اپنی بات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اختلافی نوٹ فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ فیصلہ وہی ہے جو تین ججوں نے دیا ہے، اختلافی نوٹ رائے ہو سکتی ہے اور اس رائے کو فیصلہ نہیں کہا جا سکتا، نہ وہ قانون اور آئین کی نظر میں فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو ۔انہوں نے کہا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ بہترین جج اور انسان ہیں، میرا ان کیساتھ بہت پرانا تعلق ہے جب وہ وکالت کرتے تھے، وہ ذہین اور قابل انسان ہیں لیکن ایک رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے، بہت ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنا اختلافی نوٹ قرآن پاک کی کسی آیت، حدیث مبارکہ، یا اقوال رسولﷺ سے شروع کرتے، مگر پتہ نہیں وہ کون ہے گاڈ فادر جس سے اختلافی نوٹ شروع کیا ۔

میں نے ہر جگہ یہی دیکھا ہے کہ فارچیون کا مطلب دولت کا ذخیرہ نہیں بلکہ خوش بختی ہوتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک آدمی نے ہر کسی کی پگڑی اچھالنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے ، جلسوں میں عدالتوں سے متعلق ہتک آمیز گفتگو کی جاتی ہے ۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو دھمکیں اور گالیاں دی جاتی ہیں، یہی رویہ لوچا سب سے اوچا کے مترادف ہے لیکن اصل فیصلہ تو عوام نے کرنا ہے جو 2018کے الیکشن میں ہی ہو گا اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ دھمکیوں اور پراپیگنڈے سے ہم ہتھیار ڈال دیں گے، ہماری آواز بلند ہونے کو بے تاب ہے اور اگر یہ بلند ہو گئیں تو پھر دبائی نہیں جا سکیں گی۔

الیکشن میں عوام نے حق اقتدار سے محروم کیا تو ہم قبول کریں گے اور چوں چراں نہیں کریں گے اور جسے موقع دیں گے اسے سلام کریں گے۔