Live Updates

پانامہ سیاسی کیس ہے اس کا فیصلہ 2018کے عام انتخابات یاپارلیمنٹ میں ہی ہونا ہے‘رانا ثناء اللہ خان

‘آئی ایس پی آر کا بیان بھی جے آئی پراعتماد کا اظہار ہے ‘جے آئی میں نوازشر یف ‘اسحاق ڈار ‘مر یم نواز اور کپٹن (ر) صفدر کا کوئی تعلق نہیں 7سوال میاں شر یف اور 4سوالات حسن اور حسین نواز کے کاروبار کے متعلق ہیں ‘ پانامہ کیس کا فیصلہ وہی ہے جو تین ججوں نے سنایا ہے جبکہ اختلافی نوٹ فیصلہ نہیں ہے لیکن عمران خان اور ان کیساتھ ایک شیطان، اور ایک مکار مولوی سپریم کورٹ کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور اختلافی نوٹ کو بہانہ بنا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں‘جسٹس آصف سعید کھوسہ بہت اچھے انسان بھی ہیں مگر اچھا ہوتا وہ اپنے اختلافی نوٹ کا آغاز گارڈر فادر کی بجائے قر آن پاک سے کسی اچھی آیت مبارکہ سے کر تے‘فارچون کا مطالبہ دولت کی ذخیرہ کر نا نہیں خوش قسمتی ہے ‘عوام آج دل گر فتہ ہے کہ ہمارے آئینی ادارے پر دبائو میں لایا جاتا ہے دھمکیاں دی جاتی ہے اور اپنی مر ضی کے فیصلے لیتا ہے یہی رویہ لوچا سب سے اوچا کے مترادف ہے‘ پنجاب اسمبلی کے احاطے میں میڈیاسے گفتگو میں صوبائی وزیر قانون کی گفتگو

پیر 24 اپریل 2017 18:10

پانامہ سیاسی کیس ہے اس کا فیصلہ 2018کے عام انتخابات یاپارلیمنٹ میں ہی ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 24 اپریل2017ء) صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ پانامہ سیاسی کیس ہے اس کا فیصلہ 2018کے عام انتخابات یاپارلیمنٹ میں ہی ہونا ہے‘آئی ایس پی آر کا بیان بھی جے آئی پراعتماد کا اظہار ہے ‘جے آئی میں نوازشر یف ‘اسحاق ڈار ‘مر یم نواز اور کپٹن (ر) صفدر کا کوئی تعلق نہیں 7سوال میاں شر یف اور 4سوالات حسن اور حسین نواز کے کاروبار کے متعلق ہیں ‘ پانامہ کیس کا فیصلہ وہی ہے جو تین ججوں نے سنایا ہے جبکہ اختلافی نوٹ فیصلہ نہیں ہے لیکن عمران خان اور ان کیساتھ ایک شیطان، اور ایک مکار مولوی سپریم کورٹ کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور اختلافی نوٹ کو بہانہ بنا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں‘جسٹس آصف سعید کھوسہ بہت اچھے انسان بھی ہیں مگر اچھا ہوتا وہ اپنے اختلافی نوٹ کا آغاز گارڈر فادر کی بجائے قر آن پاک سے کسی اچھی آیت مبارکہ سے کر تے‘فارچون کا مطالبہ دولت کی ذخیرہ کر نا نہیں خوش قسمتی ہے ‘عوام آج دل گر فتہ ہے کہ ہمارے آئینی ادارے پر دبائو میں لایا جاتا ہے دھمکیاں دی جاتی ہے اور اپنی مر ضی کے فیصلے لیتا ہے یہی رویہ لوچا سب سے اوچا کے مترادف ہے ۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی کے احاطے میں میڈیاسے گفتگو میں صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ ہم اداروں کا احترام کر نا چاہتے ہیں مگر اگر ہماری آواز بلند ہونا شروع ہوگئی تو پھر کوئی ہماری آواز نہیں دبا سکتا ۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ہونے والی گفتگو کا ذکر کیا اور کہا کہ چیف جسٹس بہت قابل اور اچھے انسان ہیں اور بہت ہی شائستہ گفتگو کرتے ہیں میں ان کی عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے درخواست کرتا ہوں کہ آپ نے جو نرم و نازک کلام عمران خان کیساتھ کیا ہے وہ ناداں پر اثر نہیں کرتا اور اس کا الٹا اثر ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کا نرم و نازک کلام کرنا بندر کو سر پر چڑھانے والی بات ہے اور ایسے شخص کو لیڈر کہنا، بندر کے ہاتھ میں ماچس دینے والی بات ہے اسے تو توہین عدالت کا نوٹس جاری ہنا چاہئے کہ تم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کی جرت کیسے کی ۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ کیس کا فیصلہ وہی ہے جو تین ججوں نے سنایا ہے جبکہ اختلافی نوٹ فیصلہ نہیں ہے لیکن عمران خان اور ان کیساتھ ایک شیطان، اور ایک مکار مولوی سپریم کورٹ کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ کا کا یہ موقف تھا کہ اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے تاکہ وہ صاف اور شفاف تحقیقات کرے لیکن سپریم کورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانے پر دھمکیاں دی گئیںاور عوام دل گرفت ہیں کہ مارے اداروں کو دبا میں لایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کوئی ایک بھی نکات ایسا نہیں جس میں میاں نواز شریف کا ذکر ہو بلکہ 7 سوالات میاں محمد شریف کے کاروبار سے متعلق ہیں اور 4 سوال حسن اور حسین نواز کے کاروبار سے متعلق ہیں اور نواز شریف، مریم نواز شریف، کیپٹن (ر)صفدر اور اسحاق ڈار سے متعلق اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو انسان اپنا جواب دینے کیلئے دنیا میں موجود نہ ہو اس کیلئے قانون بڑا واضح ہے البتہ جو موجود ہیں انہیں تمام شہادتیں پیش کرنی چاہئیں اور کی بھی گئی ہیں جبکہ نواز شریف کے بچوں سے جو سوالات پوچھے گئے ہیں وہ ان کا جواب دیں گے۔انہوں نے کہا کہ (ن) لیگ سپریم کورٹ کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرتے ہیں اور عمران خان نے بھی پوری قوم سے ایک بار نہیں درجنوں بار یہ کہا ہے کہ جو بھی فیصلہ ہو گا اسے من و عن تسلیم کیا جائے گا لیکن اب عمران خان، اس کیساتھ ایک شیطان اور ایک مکار مولوی سپریم کورٹ کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک حصے کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں، وہ اس کو رد کر رہے ہیں، یہ توہین عدالت ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی توہین ہے ۔

عمران خان ایک اختلافی نوٹ کو بہانہ بنا کر اپنی بات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر قانون نے کہا کہ اختلافی نوٹ فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ فیصلہ وہی ہے جو تین ججوں نے دیا ہے، اختلافی نوٹ رائے ہو سکتی ہے اور اس رائے کو فیصلہ نہیں کہا جا سکتا، نہ وہ قانون اور آئین کی نظر میں فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو ۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ بہترین جج اور انسان ہیں، میرا ان کیساتھ بہت پرانا تعلق ہے جب وہ وکالت کرتے تھے، وہ ذہین اور قابل انسان ہیں لیکن ایک رائے سے اختلاف ہو سکتا ہے، بہت ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنا اختلافی نوٹ قرآن پاک کی کسی آیت، حدیث مبارکہ، یا اقوال رسولﷺ سے شروع کرتے، مگر پتہ نہیں وہ کون ہے گاڈ فادر جس سے اختلافی نوٹ شروع کیا ۔

میں نے ہر جگہ یہی دیکھا ہے کہ فارچیون کا مطلب دولت کا ذخیرہ نہیں بلکہ خوش بختی ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے ہر کسی کی گپڑی اچھالنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے ، جلسوں میں عدالتوں سے متعلق ہتک آمیز گفتگو کی جاتی ہے ۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو دھمکیں اور گالیاں دی جاتی ہیں ، یہی رویہ لوچا سب سے اوچا کے مترادف ہے لیکن اصل فیصلہ تو عوام نے کرنا ہے جو 2018کے الیکشن میں ہی ہو گا، اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ دھمکیوں اور پراپیگنڈے سے ہم ہتھیار ڈال دیں گے ، ہماری آواز بلند ہونے کو بے تاب ہے اور اگر یہ بلند ہو گئیں تو پھر دبائی نہیں جا سکیں گی۔

الیکشن میں عوام نے حق اقتدار سے محروم کیا تو ہم قبول کریں گے اور چوں چراں نہیں کریں گے اور جسے موقع دیں گے اسے سلام کریں گے۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات