کاٹن ائیر 2017-18ء کے دوران پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار اس سال کے مقابلے میں بھی کم پیدا ہونے کے خدشات

اتوار 23 اپریل 2017 19:43

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 اپریل2017ء) فیڈرل کاٹن کمیٹی (ایف سی سی) کی جانب سے کاٹن ائیرز 2015-16ء اور 2016-17ء کیلئے کپاس کے مجموعی ملکی پیداواری تخمینہ جات کے مقابلے میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار انتہائی کم ہونے کے باوجود ایف سی سی نے کاٹن ائیر 2017-18ء کیلئے بھی کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار بارے ایک بار پھر غیر حقیقت پسندانہ اور ناقابل فہم تخمینہ جاری کر دیا ۔

چیئر مین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ ایف سی سی نے کاٹن ائیر 2015-16ء کیلئے کپاس کا مجموعی ملکی پیداواری تخمینہ 1 کروڑ 54لاکھ 88ہزار بیلز مختص کیا تھا جبکہ اس تخمینہ کے مقابلے میں اس سال کے دوران پاکستان بھر میں کپاس کی صرف 97 لاکھ 68 ہزار 443 بیلز پیدا ہوئی تھیں ،اسی طرح کاٹن ائیر 2016-17ء کیلئے ایف سی سی نے کپاس کا مجموعی ملکی پیداواری تخمینہ 1 کروڑ 41 لاکھ بیلز مختص کیا تھا جبکہ اس سال پاکستان بھر میں کپاس کی صرف 1 کروڑ 7 لاکھ بیلز پیدا ہوئی ۔

(جاری ہے)

ایف سی سی کے تخمینہ جات کے مقابلے میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار انتہائی کم ہونے کے باوجود ایف سی سی نے کاٹن ائیر 2017-18ء کیلئے 1 بار پھر کپاس کا مجموعی ملکی پیداواری تخمینہ 1کروڑ 40 لاکھ بیلز مختص کر دیا ہے جبکہ حالات کے تناظر میں کاٹن ائیر 2017-18ء کے دوران پاکستان میں کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار اس سال کے مقابلے میں بھی کم پیدا ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں ۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت پنجاب کی جانب سے رواں سال پنجاب بھر میں 15 اپریل سے قبل کپاس کی کاشت پر عائد پابندی جسے بعد میں کسان تنظیموں کے احتجاج پر یکم اپریل کر دیا گیا تھا ،کے باعث ملتان ،ساہیوال اور فیصل آباد ڈویژن کے بیشتر اضلاع میں بڑے پیمانے پر کپاس کی بجائے مکئی اور سورج مکھی کی کاشت ہونے اور اب سندھ اور پنجاب میں نہری پانی کی شدید کمی کے باعث کپاس کی کاشت کو کافی خطرارت لاحق ہیں جبکہ رحیم یار خان ،بہاولپور ،سانگھڑ ،گھوٹکی ،سکھر ،خیر پور میرس اور نواب شاہ کے اضلاع میں گنے کی کاشت میں ریکارڈ اضافے کے باعث رواں سال کپاس کی کاشت پچھلے سال کے مقابلے میں بھی کم رقبے پر ہونے کی اطلاعات ہیں جس سے کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار بھی پچھلے سال کے مقابلے میں کم ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں ۔

اس لیے ایف سی سی کو چاہیے تھا کہ وہ حقیقت پر مبنی کپاس کا مجموعی ملکی پیداواری تخمینہ مختص کرتی تاکہ کاٹن انڈسٹری کو اپنی حکمت عملی ترتیب دینے میں مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔

متعلقہ عنوان :