خوشحال خان خٹک نے جب پختونوں کی یکجہتی کیلئے کمر باندھی تو مرتے دم تک اُس پر قائم رہے، میاں افتخار حسین

ہفتہ 22 اپریل 2017 22:42

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 اپریل2017ء) اے این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین نے کہا کہ ملک کی خارجہ و داخلہ پالیسیاں قومی مفاد میں نہیں ہیں جس کا فائدہ سپر پاور اور خطے کے دیگر ممالک کو ہو رہا ہے زندہ قومیں اپنے مسائل کے حل کیلئے حقائق کو تسلیم کر کے آگے بڑھتی ہیں۔ بصورت دیگر اُن کے مسائل کے حل ہونے کی بجائے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار اُنہوں نے اکوڑہ خٹک میں خوشحال خان خٹک کی سوچ و فکر اور اُن کی خدمات کے اعتراف میں منعقدہ سمینار میں ایوارڈتقسیم کرنے کی تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پاکستان اور افغانستان سے آئے ہوئے ادیب ، مفکرین، شعراء نے اپنے اپنے مقالے پیش کیے ۔ میاں افتخار حسین نے اپنے خطاب میں خوشحال خان خٹک کی زندگی اور جدوجہد پر تفصیلی روشنی ڈالی ، اور پختونوں کے اتحاد و اتفاق کیلئے کی جانے والی کوششوں پر اُنہیں خراج تحسین پیش کیا۔

(جاری ہے)

اُنہوں نے کہا کہ خوشحال خان خٹک نے جب پختونوں کی یکجہتی کیلئے کمر باندھی تو مرتے دم تک اُس پر کمر بستہ رہے۔ تاہم مسائل کے حل کیلئے ہم سب کو حقائق تسلیم کرنا ہونگے۔اُنہوں نے کہا کہ اس حوالے سے اے این پی اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں ہم نے صوبے کی شناخت ، این ایف سی ایوارڈ اور فاٹا کے صوبے میں انضمام کے حوالے سے تاریخی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ ہم نے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا مطالبہ منوایا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مرکزی حکومت نے ابھی تک اس کو آئینی حیثیت نہیں دی۔ لہٰذا جلد سے جلد قبائل کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا آئینی حق فراہم کرے۔ اسی طرح اے این پی بلوچستان کے پختونوں کو بھی خیبر پختونخوا سے ملانے کی جدوجہد کرے۔اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے مشروط ہے اور پرامن اور مترقی پاکستان کیلئے افغانستان کا پرامن اور مترقی ہونا ضروری ہے ۔

افغانستان کے تمام سٹیک ہولڈرز اپنے عوام کے بنیادی حقوق کیلئے جدوجہد کریں۔ اُنہوں نے ایک بار پھر اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ افغانستان کے امن کیلئے ماسکو میں پاکستان ، چین اور روس مل کر مذاکرات کر رہے ہیں جبکہ افغانستان کی شرکت کے بغیر یہ مذاکرات سمجھ سے بالا تر ہیں۔ البتہ ان مذاکرات سے مزید غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں ۔ اُنہوں نے اس بازگشت پر تشویش کا اظہار کیا کہ داعش کے خاتمے کیلئے طالبان کیساتھ صلح جوئی سے کام لیا جائیگا جو اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ پہلے ہم طالبان کے خاتمے کی جنگ میں چالیس سال تک مرتے رہے اب مزید چالیس سال داعش کے خلاف جنگ میں جانوں کی قربانیاں دینگے جو کسی صورت بھی مسئلے کا حل نہیں ۔

اُنہوں نے افغان عوام پر زور دیا کہ وہ اپنی حکومت اور ریاست پر دباؤ ڈالے کہ وہ اپنی پالیسیاں قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے بنائیں اسی طرح پاکستان کی پالیسیاں بھی تبدیل کی جائیں اور اگر یہ قومی مفاد میں بنائی جائیں تو امن کی صورت حال نکل سکتی ہے اُنہوں نے کہا کہ امریکہ ایران کے بعد افغانستان میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے اور اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے جبکہ روس گرم پانی تک پہنچنے کی کوشش میں ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا لیکن اب سی پیک کے ذریعے وہ اُسی گرم پانی تک باآسانی پہنچ چکا ہے ۔

اُنہوں نے کہا کہ خطے کے تمام ممالک اپنے مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں جس کا نقصان صرف ہمیں ہو رہا ہے ، اُنہوں نے کہا کہ ہم تشدد کے حامی نہیں اور امن کا قیام صرف مسائل کے حل سے ہی ممکن ہے۔ مشال سانحے کا ذکر کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ قوم اے پی ایس کے بعد اب مشال کے سانحے پر ایک بار پھر متحد ہو چکی ہے تاہم اُنہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر اے این پی کے 800 سے زائد کارکنوں اور عوامی نمائندوں کی قربانی پر دُنیا بھر میں اس کے خلاف آواز بلند کی جاتی تو شاید ہم اے پی ایس اور مشال جیسے سانحات سے بچ سکتے تھے۔

لیکن حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے باعث یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔اور اگر اب بھی حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو نہ جانے اور کتنے مشال بجھ جائیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ شہید مشال پر لگائے گئے الزامات غلط ثابت ہو چکے ہیں اور اُس کے قاتلوں کو عبرت ناک سزا ملنے تک ہم سب کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔ آخر میں اُنہوں نے افغانستان سے آنے والے مہمان ، ادیب ، شعراء ، مفکرین اور دیگر شرکاء کو خوش آمدید کہا جبکہ پاکستان بھر سے شرکت کرنے والوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔

اُنہوں نے مسعود عباس خٹک سمیت اس پروگرام کے تمام منتظمین کو خراج تحسین پیش کیا اور مزید کہا کہ نوجوان نسل کو کنفیوژن سے بچانے کیلئے باچا خان بابا کا عدم تشدد کا فلسفہ سب سے بڑا ہتھیار ہے جبکہ خوشحال خان خٹک کی سوچ اور فکر اُن کیلئے مشعل راہ ہیں۔