عسکری پارک میں تجارتی سرگرمیوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا ،جام خان شورو

پارک کی زمین کا 0.925 حصہ 2009 میں اس وقت کے سٹی ناظم نے قومی ادارے سے واپس لیا تھا ،وزیر بلدیات سندھ

جمعہ 21 اپریل 2017 20:12

عسکری پارک میں تجارتی سرگرمیوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا ،جام خان ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اپریل2017ء) وزیر بلدیات سندھ جام خان شورو نے کہا ہے کہ عسکری پارک پرانی سبزی منڈی کراچی میں اگر سندھ حکومت کے زیر انتظام زمین پر کسی قسم کی کوئی تجارتی سرگرمیاں کی جا رہی ہیں تو اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا ۔ اس پارک کی زمین کا 0.925 حصہ 2009 میں اس وقت کے سٹی ناظم نے قومی ادارے سے واپس لیا تھا ۔

ضلع غربی میں ایڈمنسٹریٹر کو ہدایات جاری کر دی جائیں گی کہ وہ اس علاقے کے منتخب ارکان سندھ اسمبلی کے ساتھ مل کر کام کریں ۔ وہ جمعہ کو سندھ اسمبلی میں ارکان اسمبلی کے توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دے رہے تھے ۔ ایم کیو ایم کے رکن قمر عباس رضوی کی جانب سے عسکری پارک کراچی میں تجارتی سرگرمیوں کی جانب توجہ مبذول کرائے جانے پر وزیر بلدیات سندھ جام خان شورو نے ایوان میں بتایا کہ اس پارک کے لیے 2001 میں اس وقت کے سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے ایک قومی ادارے کو دیا تھا ، جس کے بعد 2009 ء میں اس وقت کے سٹی ناظم سید مصطفی کمال نے اس میں سے 0.925 ایکڑ زمین کا حصہ واپس لے لیا اگر اس میں سے کوئی تجارتی سرگرمی جاری ہے تو میں معزز رکن کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا ۔

(جاری ہے)

ایم کیو ایم کے رکن سیف الدین خالد کی جانب سے ضلع غربی میں مولانا شوکت حسین روڈ پر صفائی ستھرائی اور مذکورہ سڑک کی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ ساتھ متعلقہ ضلع کے ایڈمنسٹریٹر کی جانب سے منتخب ارکان سندھ اسمبلی کے ساتھ عدم تعاون کی جانب توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں وزیر بلدیات سندھ جام خان شورو نے کہا کہ مولانا شوکت حسین روڈ کی صفائی ستھرائی اور اس کی تعمیر کے لیے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں اور ایک ہفتہ کے اندر اس پر کام شروع کر دیا جائے گا ۔

انہوں نے معزز رکن کی جانب سے مذکورہ ضلع کے ایڈمنسٹریٹر کے عدم تعاون پر یقین دلایا کہ وہ ابھی ایڈمنسٹریٹڑ کو ہدایات دے دیں گے کہ وہ اس ضلع کا ایڈمنسٹریٹر منتخب نمائندوں کے ساتھ مل کر ضلع میں کاموں کو مکمل کریں ۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں متحدہ قومی موومنٹ کی رعنا انصار نے توجہ دلاؤ نوٹس میں کہا کہ لیاقت نیشنل اسپتال جامشورو میں آئی سی یو کا وارڈ چار ماہ سے بند ہے ۔

وہاں مریضوں کو شدید تکلیف ہے ۔ ٹھیکیدار کام نہیں کر رہے ہیں ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسپتال میں بستروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر سکندر میندھرو نے توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ لیاقت نیشنل اسپتال بنیادی طور پر 1500 بستروں پر مشتمل ہے اور یہ دو حصوں پر ہے ۔ ایک حصہ حیدر آباد سول اسپتال ، دوسرا لیاقت نیشنل جامشورو ۔

حیدر آباد میں آئی سی یو کا وارڈ 10 بستروں پر مشتمل ہے ، جس کو جون 2017 تک 50 بستروں کا کر دیا جائے گا ۔ جامشورو کے اسپتال میں عارضی طور پر آئی سی یو روم قائم کیا گیا تھا ، جو چار بستروں پر مشتمل تھا ۔ اس پر کام مکمل ہو چکا ہے اور اب یہ 8 بستروں پر مشتمل ہو گا ۔ تحریک انصاف کے خرم شیر زمان نے کہا کہ اسکولوں کی رجسٹریشن اسکول مالاکان کو یہ اجازت نہیں دیتا ہے کہ وہ یونیفارم ، کتابیں اور دیگر اسٹیشنری اسکول سے ہی خریدنے پر والدین کو مجبور کریں ۔

حکومت اس کا ایکشن لے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے ۔ صوبائی وزیر تعلیم جام مہتاب حسین ڈاہر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ رول 18 کے تحت شکایات کے لیے ایک سیل بنا ہوا ہے ، جو 15 دن میں تحقیقات کرتا ہے اور اگر 15 دن میں معاملہ حل نہٰں ہوتا ہے تو ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے ۔ ایم کیو ایم کے کامران اختر نے توجہ دلاؤ نوٹس پر کہا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن میں کوٹہ سسٹم کے تحت ممبران کی تعداد کیا ہے ، ہمیں بتایا جائے ۔

1970 ء کی دہائی میں یہ ظالمانہ نظام لایا گیا ۔ 2008 ء میں دو لاکھ 3 ہزار سرکاری ملازمین تھے اور 2014 میں یہ 6 لاکھ ہو گئے ہیں ۔ کیا اس میں کوٹے کا خیال رکھا گیا ہے ۔ 25 سے 30 ہزار افراد کو جعلی ڈومیسائل پر ملازمتیں دی گئیں ۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن کے ممبران میں سے کسی کا بھی تعلق شہری علاقوں سے نہیں ۔ اب تعصب ختم ہونا چاہئے اور شہری علاقوں کو حق دیا جائے ۔

اگر کوٹہ کی بنیاد پر حالات بہتر ہونا ہوتے تو لاڑکانہ ، نواب شاہ ، خیرپور کی اتنی بری حالت نہیں ہوتی ۔ انہوں نے کہا کہ مختلف محکموں میں 300 ملازمتوں میں کمیشن نے اب تقرریاں کرنی ہیں ۔ کیا اس میں انصاف کیا جائے گا ۔ اگر انصاف نہیں ہے تو پھر یہ کام بھی اومنی گروپ کو دے دیا جائے ۔ صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کوٹہ سسٹم کو تعصب قرار دینا غلط ہے ۔

دراصل یہ سسٹم شہری اور دیہی سہولیات کی وجہ سے آیا کوٹہ سسٹم جمہوری حکومت میں آیا لیکن آمروں نے بھی مسلسل اس کو توسیع دی اور آمروں کے ساتھ کون تھے ، سب کو پتہ ہے ۔ یہاں پر 90 فیصد شرح خواندگی ہے لیکن دیہی سندھ کے ایسے علاقے بھی ہیں ، جہاں پر خواتین شرح خواندگی صرف 8 فیصد ہے ۔ اس لیے کوٹہ سسٹم تعصب نہیں بلکہ لوگوں کو برابر لانا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہاں پر نقل کا رحجان کو کس نے پروان چڑھایا اور مساجد سے اعلان ہوتا تھا کہ نقل کرو ۔ سندھ سب کا ہے اور سب سندھیوں کا اس میں حق ہے ۔ ہم دیہات کے لوگوں کو سہولیات دینا چاہتے ہیں ۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کے 10 ممبران ہیں ، جن میں سے چیئرمین سمیت 3 کا تقرر ہوا ہے اور باقی 8 کا بھی میرٹ کی بنیاد پر تقرر ہو گا ۔

متعلقہ عنوان :