بچوں کیلئے تحفظ اور انصاف مانگنے عدالت جا رہے ہیں، ضیاء احمد اعوان

اغوا شدہ، بھکاری اور اسٹریٹ چلڈرن کی تعداد میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاست بچوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو گئی ،بانی مددگار نیشنل ہیلپ لائن

جمعہ 21 اپریل 2017 17:23

بچوں کیلئے تحفظ اور انصاف مانگنے عدالت جا رہے ہیں، ضیاء احمد اعوان
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اپریل2017ء) مددگار نیشنل ہیلپ لائن کے بانی اور نیشنل چائلڈ کمشنر ضیاء احمد اعوان نے کہاہے کہپورے ملک میں گم شدہ، اغوا شدہ اور ٹریفک ہوئے بچوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ اور سڑکوں پر بھیک مانگنے، رہنے اور کام کرنے والے بچوں کی بڑی تعداد ایک قومی مسئلہ ہے۔ وہ اپنے دفتر میں اہم پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے،انہوں نے بتایا کہ مددگار نیشنل ہیلپ لائن کے اعداد و شمار(پولیس کنٹرول روم سے حاصل کردہ) کے مطابق سال 2016 میںصرف کراچی میں 2135 بچوں کی گمشدگی رپورٹ کی گئی۔

جبکہ مددگار نے پورے ملک میں2251 بچوں کے والدین کی ان کے جگر گوشوں کو تلاش کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے قومی اور بین الاقوامی اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں پندرہ لاکھ اسٹریٹ چلڈرن ہیں اور یہ کہ سال 2015میں 576بچے پاکستان سے ٹریفک کئے گئے۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید بتایا کہ مددگار کی میڈیا رپورٹس کی ڈیٹا بیس جو بچوں پر تشدد کی خبروں پر مبنی ہے، اس کے مطابق پاکستان میں سال 2016میں ٹریفکنگ کے 52، اغوا کے 472اور گمشدگی کے 115واقعات اخبارات میں رپورٹ ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان بچوں کی حفاظت کے موضوعات پراپنے کئی آرٹیکلز میں بات کرتا ہے اور یہ کہ اقوام متحدہ کا بچوں کے حقوق کا کنونشن (UNCRC) بھی بچوں کی حفاظت کے کئی بنیادی حقوق کی درجہ بندی کرتا ہے۔ پاکستان نے اس معاہدے کو 1990 میں اپنایا اور اس کی توثیق کی۔ اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانونی اور عملی اقدامات کرے جن سے بچے تمام مصائب سے محفوظ رہیں۔

انہوں نے مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ UNCRC کے آرٹیکل 11اور آرٹیکل 35 کے تحت یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام ایسے قانونی، انتظامی اور عملی اقدامات کرے جن سے یہ یقینی بنایا جا سکے کہ بچے لا پتہ اور اغوا نہ ہو پائیں۔ضیاء اعوان صاحب نے کہا کہ ریاست ہماری قوم کے بچوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہے اور انہیں گم، اغوا اور ٹریفک ہونے سے نہیں بچا سکی ۔

نہ ہی صوبائی سطح پر باہمی رابطے اور تعاون کا کوئی ایسا نظام موجود ہے جو ایسے بچوں کی مدد ، انہیں برآمد کرانے اور ان کے گھروالوں سے ملوانے میں کام آئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کبھی پولیس ایسے بچوں کا پتا لگا بھی لے تو انہیں ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے جس میں یہ دوسرے صوبوں کی انتظامیہ سے رابطہ کرتے ہیں اور ان سے اجازت لیتے ہیںکہ انہیں اس صوبے کی پولیس کا تعاون مہیا کیا جائے تاکہ بچوںبرآمد اورپھر ان کے گھر والوں سے ملایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ان بچوں کی حفاظت کسی بھی صوبائی حکومت کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے اور اسی وجہ سے اس بارے میں کچھ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب میں طیبہ اور بچوں کی فحش فلمیں بنانے کے کیس، سندھ میں بچوں سے ریپ اور گمشدگی کے کیس، خیبر پختون خواہ میںجسمانی سزا اور اسٹریٹ چلڈرن پر تشدد اور بلوچستان میں بچوں کی ٹریفکنگ اور غلامی کے کیس کا تجزیہ مذکورہ بالا دلیل کی صداقت کو ثابت کرتا ہے اور اسی وجہ سے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم پاکستان کی عدالت عالیہ میں یہ معاملہ لے کر جائیں گے تاکہ وہ اس کا نوٹس لے کیونکہ اب یہی ایک واحددروازہ ہیجہاں سے ہمیں ان بچوں کے لئے انصاف ملنے کی امید ہے۔

اس کے لئے ہم آئین پاکستان کے آرٹیکل 184کے سیکشن 3 کے تحت پبلک انٹرسٹ لٹی گیشن کی آئینی درخواست سپریم کورٹ میں داخل کر رہے ہیں۔ اس آئینی درخواست کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں 37ریاستی ادارے جوابدہ کے طور پر نامزد کیئے گئے ہیںجن میں وفاقی، صوبائی وزارتیں اور محکمے شامل ہیں جیسے کہ :وفاقی وزارت برائے بین الصوبائی روابط،وفاقی وزارت داخلہ، اور صوبائی ہو م ڈپارٹمنٹس، وفاقی اور صوبائی پولیس کے محکمے، نادرا،پیمراء، آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی، وفاقی وزارت برائے انسانی حقوق، نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق، صوبائی کمیشن برائے انسانی حقوق، نیشنل کمیشن آن اسٹیٹس آف وومن، صوبائی سماجی بہبود کے محکمے، ایف۔

آئی۔اے، چائلڈپروٹیکشن اینڈ ویلفئیربیورو پنجاب،سندھ چائلڈپروٹیکشن اتھارٹی،چائلڈ ویلفیئراینڈ پروٹیکشن کمیشن خیبر پختونخواہ، صوبائی ویمن ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹس اور قانون و پارلیمانی افئیرز کا محکمہ(سندھ) ۔ضیاء احمد اعوان نے کہا کہ مددگار نیشنل ہیلپ لائن اپنا کیس سپریم کورٹ میں تحقیق کی بنیاد پر اکھٹے کئے گئے شواہد ، پبلک اور پرائیوٹ سیکٹر کی مختلف رپورٹوں کے بنیاد پرپیش کریگی ۔

آئینی درخواست میں کئے گئے مطالبات پر بات کرتے ہوئے ضیاء اعوان صاحب نے بتایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام جوابدہ حکومتی ادارے اور وزراء بتائیں کہ انہوں نے بچوں کی حفاظت کے لیے کیا حکمت عملیاں بنائی اور اپنائی ہیں، بین الاصوبائی رابطے اور تعاون کا نظام تشکیل دیا جائے جو خصوصی طور پر گمشدہ ، اغواء شدہ، ٹریفیک اور اسٹریٹ چلڈرن کی مدد، برآمدگی اور بحالی کے لئے ہو، ٹریفیکنگ اور مائیگریشن کے حوالے سے پڑوسی ممالک کے ساتھ جو معاہدات کئے گئے ہیںانکی تفضیلات عدالت میں پیش کی جائے، بین الاقوامی اور حکومتی امداد کی تفضیلات سے آگاہ کیا جائے جو بچوں کی حقوق اور انکی حفاظت یقینی بنانے کے لییمختص کی ہے اور جو نتائج حاصل کیے گئے انکی تفصیلات بتائی جائیں، ایک قومی سطح کا Managment Information System اغواء شدہ، ٹریفیک،اور بھیک مانگنے والے بچوں کے لیے تیار کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سول سوسائٹی کو عموم-اًً مطعون کیا جاتا ہے کہ یہ باہر سے پیسے لیتے ہیںاور رزلٹ نہیں دیتے۔ اس کیس میں ہم ریا ست سے سوال کرتے ہیںکہ انکوکتنے ذرائع سے بچوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے رقومملیہیں اور اسکا کیا نتیجہ نکلا۔ مددگار نیشنل ہیلپ لائن پاکستان کی پہلی ہیلپ لائن ہے جو پچھلے 17سالوں سے خواتین اور بچوں کے مسائل کے لیے کراچی ،لاہور ،پشاور اور کوئٹہ میں کام کررہی ہے۔ہم خواتین اور بچوں کو شخصی اور ورچوئل مشاورت ،رہنمائی ،قانونی مدد اور ریفرل کی خدمات فراہم کرتے ہیں۔