چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کی سکیورٹی کے لئے خصوصی سکیورٹی ڈویژن تشکیل دیا گیا ہے ،ْ سینٹ میں وقفہ سوالات

سیکورٹی ڈویژن میں 9 ہزار 229 اہلکاروں پر مشتمل آرمی کمپوزٹ بٹالینز اور 4 ہزار 502 اہلکاروں پر مشتمل 6 سول آرمڈ فورسز ونگز شامل ہکلہ ،ْ ڈی آئی خان سیکشن روڈ کا تعمیراتی کام 2018ء تک مکمل ہو جائے گا ،ْ احسن اقبال

جمعہ 21 اپریل 2017 14:11

چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کی سکیورٹی کے لئے خصوصی سکیورٹی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اپریل2017ء) سینٹ کوبتایاگیا ہے کہ ہکلہ ،ْ ڈی آئی خان سیکشن روڈ کا تعمیراتی کام 2018ء تک مکمل ہو جائے گا ،ْچین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کی سکیورٹی کے لئے خصوصی سکیورٹی ڈویژن تشکیل دیا گیا ہے ،ْ سیکورٹی ڈویژن میں 9 ہزار 229 اہلکاروں پر مشتمل آرمی کمپوزٹ بٹالینز اور 4 ہزار 502 اہلکاروں پر مشتمل 6 سول آرمڈ فورسز ونگز شامل ہیں۔

جمعہ کو وقفہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے بتایا کہ منصوبہ پر ستمبر 2016ء سے کام جاری ہے اور توقع ہے کہ 2018ء تک اسے مکمل کرلیا جائیگا۔ وزارت خزانہ کی طرف سے ایوان کو بتایا گیا کہ 2013ء سے 2016ء کے دوران 2 لاکھ 69 ہزار سے زائد افراد کو زرعی ترقیاتی بینک نے قرضے فراہم کئے جبکہ 21 ہزار 691 قرضوں کے کیسز کی مدت میں توسیع کی گئی۔

(جاری ہے)

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا کہ سیکورٹی ڈویژن میں 9 ہزار 229 اہلکاروں پر مشتمل آرمی کمپوزٹ بٹالینز اور 4 ہزار 502 اہلکاروں پر مشتمل 6 سول آرمڈ فورسز ونگز شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کام کرنے والے چینی باشندوں کے تحفظ کی ذمہ داری وزارت داخلہ کے دائرہ کار میں آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورس میں کوئی غیر ملکی شامل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری ایک انتہائی اہم منصوبہ ہے جس کے خلاف دشمن بھی سرگرم ہیں لیکن یہ ہمارا قومی عزم ہے کہ اسے ہر صورت میں مکمل کیا جائے گا اور صوبائی حکومتیں بھی اس سلسلے میں ہمیں مکمل تعاون فراہم کر رہی ہیں۔وفاقی وزیر صنعت و پیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی نے بتایا کہ اس شعبے میں پاکستان کی پالیسی بالکل اوپن ہے۔

چار چینی اور ایک یورپی کمپنی پاکستان میں گاڑیاں بنانے کے لئے پلانٹس لگانا چاہتی ہیں۔ پاکستان میں 1500 سی سی کی گاڑیوں کی قیمتیں زیادہ اور اوپر کی گاڑیوں کی قیمتیں کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس شعبے میں اجارہ داری ختم کرنا چاہتے ہیں۔ نئی کمپنیاں آنے سے گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی مسابقت کی وجہ سے کمی آئے گی۔ وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے ایوان کو بتایا کہ پچھلے دس سال کے دوران تین لاکھ سے زائد افراد کے 21 ارب 50 کروڑ روپے کے زرعی قرضے معاف کئے گئے۔

ان میں 87 ارب روپے اصل زر اور 12 ارب 80 کروڑ روپے کا مارک اپ بھی شامل ہے۔ معاف کئے گئے قرضوں میں وزیراعظم کے ریلیف پیکج کے تحت معاف کئے گئے 2 ارب 13 کروڑ روپے کے قرضے بھی شامل ہیں جو 2009-10ء کے دوران کے پی کے، ملاکنڈ اور فاٹا میں جنگ سے متاثر ہونے والے علاقوں کے لئے معاف کئے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں 14 ہزار سے زائد کسانوں کے ایک ارب 37 کروڑ روپے کے قرضے ٹیوب ویلوں کے لئے معاف کئے گئے۔

وزیر تجارت خرم دستگیر نے ایوان کو بتایا کہ پچھلے پانچ سال کے دوران دودھ کی مصنوعات تیار کرنے والی کمپنیوں کی جانب سے مجموعی طور پر انکم ٹیکس کی مد میں 17 ارب 30 کروڑ روپے اور سیلز ٹیکس کی مد میں 8 ارب 40 کروڑ روپے ادا کئے گئے۔ ایف بی آر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے تحت بعض معلومات خفیہ رکھنے کا پابند ہے اس لئے ایف بی آر کو یہ معلومات فراہم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔