ملالہ صرف میری بیٹی نہیں، دوست بھی ہے، تورپیکئی یوسفزئی

سب کو پیچھے چھوڑ کر آنا بہت مشکل تھا، ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہمیں غیر ملک میں رہنا پڑے ،ہمیں اچانک پاکستان چھوڑنا پڑا تھا،بیٹی پر حملے نے سب کچھ بدل دیا ْنوبیل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کی والدہ تور پیکئی یوسف زئی کا انٹرویو

منگل 18 اپریل 2017 13:57

ملالہ صرف میری بیٹی نہیں، دوست بھی ہے، تورپیکئی یوسفزئی
لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 18 اپریل2017ء) نوبیل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کی والدہ تور پیکئی یوسف زئی نے کہا ہے کہ ملالہ صرف میری بیٹی نہیں دوست بھی ہے، سب کو پیچھے چھوڑ کر آنا بہت مشکل تھا، ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہمیں غیر ملک میں رہنا پڑے ،ہمیں اچانک پاکستان چھوڑنا پڑا تھا،بیٹی پر حملے نے سب کچھ بدل دیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں تور پیکئی یوسف زئی نے کہاکہ گذشتہ پانچ سالوں میں کس طرح ان کی اپنی زندگی تبدیل ہو گئی ہے۔انھوں نے کہا کہ سب کو پیچھے چھوڑ کر آنا بہت مشکل تھا۔ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہمیں غیر ملک میں رہنا پڑے گا۔جب دوسرے لوگ ملک چھوڑتے ہیں تو وہ ہر طرح کی پریشانی کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں لیکن ہم تیار نہیں تھے۔

(جاری ہے)

ہمیں اچانک پاکستان چھوڑنا پڑا تھا۔ حملے نے سب کچھ بدل دیا۔ ہماری توجہ ملالہ کی زندگی پر مرکوز تھی۔ملالہ کی والدہ کا کہنا تھاکہ جب ملالہ ہسپتال میں زیر علاج تھیں تو ہم سب ان کی تیمار داری میں بہت مشغول تھے۔ پھر اس نے ایک کتاب لکھی اور ہم سب اس میں مشغول ہو گئے۔ اسی سبب ہمیں لوگوں کے سامنے آنے کا موقع نہیں ملا۔'لیکن اب میں لوگوں میں تعلیمی بیداری کے لیے کوشاں ہوں اس لیے اب سے میں اس طرح کی چیزوں میں زیادہ شامل رہوں گی۔

لیکن اگر یہ انٹرویو میری مادری زبان میں ہوتا تو یہ میرے لیے زیادہ آسان ہوتا۔انھوں نے کہا کہ گذشتہ سال میں نے اس کے برتھ ڈے کارڈ پر لکھا کہ تم میری چار سال کی بیٹی ہو کیونکہ اب میں حملے کے بعد سے اس کے سال کا شمار کرتی ہوں۔ یہ ایسا ہے جیسے حملے کے بعد وہ دوبارہ پیدا ہوئی ہے۔تور پیکئی کی زندگی اب برطانیہ میں جڑیں جما چکی ہے وہ ملالہ اور اپنے دو بیٹوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔

نوبیل کا امن انعام جیتنے اور دنیا بھر کے رہنماں سے ملنے کے باوجود ملالہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کمرے کی صفائی کرے اور اپنی دیکھ بھال خود کرے۔درحقیقت جب وہ اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے روزانہ کے کام کا ذکر کرتی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی ماں اس صدی کی اپنی ٹین ایج لڑکی کے ساتھ سلوک کر رہی ہو۔انھوں نے بتایا کہ وہ اچھی طرح نہیں کھاتی ہے اور زیادہ پانی نہیں پیتی ہے۔

وہ وقت پر سونے نہیں جاتی ہے اور دیر رات تک جاگتی رہتی ہے۔ ہم اس کہتے ہیں کہ پھل کھائے اور عبادت کرے۔ وہ اپنے بھائیوں کو یہی بات کہتی ہے لیکن خود نہیں کرتی۔ہر چند کیتور نے خود پاکستان میں تعلیم حاصل نہیں کی لیکن اب وہ برمنگھم میں انگریزی کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور انھوں نے اس کے ذریعے اپنے دوستوں کا ایک حلقہ بنایا ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ 'ان میں سے بعض سوات کی ہیں اور میں انھیں پہلے سے جانتی ہوں۔

اور حال میں ایک اور شناسا پیشاور سے آ گئے ہیں۔'میری انگریزی کی کلاس میں پاکستان سے تو کوئی نہیں لیکن عراق اور ایران سے لوگ ہیں ایک افغانستان سے بھی ہے۔ ہم ساتھ میں پارٹی کرتے ہیں۔ میں چاول، مرغی، مچھلی بناتی ہوں اور وہ میرے کھانے کو پسند کرتے ہیں۔برطانیہ میں انگریزی سیکھنے سے 45 سالہ طور میں آزادی کا احساس پیدا ہوا ہے۔وہ کہتی ہیں: 'پہلے پہل تو جب لوگ انگریزی میں بات کرتے تھے تو مجھے سمجھ میں ہی نہیں آتا تھا۔

یس اور نو جیسے الفاظ کہنے میں بھی دقت ہوتی تھی لیکن اب اس میں بہتری آئی ہے اور میں آگے بڑھ رہی ہوں۔ اس سے زندگی بہتر ہوئی ہے، سفر کرنے اور ڈاکٹر کے کے یہاں جانے میں آسانی ہوئی ہے۔ملالہ اب 19 سال کی ہیں اور اب وہ یونیورسٹی جانے والی ہیں جہاں وہ سیاست، فلسفہ اور معاشیات کی تعلیم حاصل کریں گی۔ ان کے لیے بہت ساری پیشکش ہیں۔ہم اس کے لیے بہت خوش ہیں۔

جس دن اسے پیشکش ہوئی تھی ہم خوشی سے چیخ پڑے تھے۔ اس کی زندگی کا ہر لمحہ ہمیں خوشی دیتا ہے۔لیکن پھر اس کے ساتھ ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں جب انھیں یہ خیال آتا ہے کہ ان کی بچی گھونسلہ چھوڑ کر چلی جائے گی۔'میں یہ سوچ کر پریشان ہوتی ہوں کہ وہ کیا کھائے گی اور اپنے لیے کیسے پکائے گی۔ یہ مشکل ہے لیکن مجھے اسے قبول کرنا پڑے گا۔ میں اسے بہت یاد کروں گی اور یہ گھر اس کے بغیر خالی خالی لگے گا۔ ملالہ صرف میری بیٹی نہیں بلکہ میری دوست بھی ہے۔