عبدالولی خان یونیورسٹی کے لیکچرار ضیاء اللہ ہمدرد نے مشال خان کے قتل کا ذمہ دار یونیورسٹی انتظامیہ کو ٹھہرادیا

مشال خان کو باقاعدہ سازش کے تحت قتل کرایا گیا، یونیورسٹی انتظامیہ نے مشال خان کو توہین رسالت کے الزام میں یونیورسٹی سے نکالے جانے کا جعلی نوٹیفکیشن جاری کیا ، مشال خان بہت ہی ذہین طالبعلم اور ہیومنسٹ تھا ، مجھے بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور میری جان کو بھی خطرہ ہے،نجی ٹی وی سے گفتگو

منگل 18 اپریل 2017 00:00

عبدالولی خان یونیورسٹی کے لیکچرار ضیاء اللہ ہمدرد نے مشال خان کے قتل ..
پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 17 اپریل2017ء) عبدالولی خان یونیورسٹی کے لیکچرار ضیاء اللہ ہمدرد نے مشال خان کے قتل کا ذمہ دار یونیورسٹی انتظامیہ کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ مشال خان کو باقاعدہ سازش کے تحت قتل کرایا گیا، یونیورسٹی انتظامیہ نے مشال خان کو توہین رسالت کے الزام میں یونیورسٹی سے نکالے جانے کا جعلی نوٹیفکیشن جاری کیا ، مشال خان بہت ہی ذہین طالبعلم اور ہیومنسٹ تھا ، مجھے بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور میری جان کو بھی خطرہ ہے ۔

وہ پیر کو نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ مشال خان کی قابل اعتراض پوسٹیں نہیں دیکھیں اور نہ ہی وہ ایسا کر سکتا تھا ۔ پروفیسر ضیاء اللہ نے کہا کہ یونیورسٹی میں دو ہفتوں سے احتجاج چل رہا تھا ۔

(جاری ہے)

13 اپریل کو اچانک 15سے 20 طالبعلم مشال اور عبداللہ کے خلاف شکایت لے کر آئے کہ انہوں نے توہین مذہب کی ہے ۔

میں نے انہیں کہا کہ مجھ ثبوت دکھائو تو ثبوت کسی کے پاس نہیں تھے مگر اچانک سے پوری یونیورسٹی میں یہ بات پھیل گئی کہ مشال نے توہین رسالت کی ہے ۔ میں نے مشال کو فون کرکے کہا کہ وہ یونیورسٹی ہاسٹل سے نکل جائے ورنہ یہ مشتعل لوگ اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں جس پر اس نے کہا کہ وہ یونیورسٹی سے نکل چکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مشتعل طلبہ عبداللہ کو مارنے پیٹنے لگے ۔

ڈی ایس پی صاحب اور میں اسے بچانے کی کوشش میں زخمی بھی ہوئے ۔ ڈی ایس پی صاحب نے اپنی جان پر کھیل کر عبداللہ کو بچایا ۔ طلباء کسی کوسننے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ مشال کے مجھے دو مسیج بھی آئے جس میں اس نے لکھا کہ یہ سب کچھ میرے خلاف سیاسی طور پر کیا جا رہا ہے ۔ میں نے اس کے جواب میں او کے لکھ دیا ۔ طلباء کے ہجوم میں لڑکے مختلف ڈیپارٹمنٹ سے اکٹھے ہوئے تھے اس لئے انہیں پہچاننا مشکل تھا ۔

پروفیسر ضیاء اللہ نے کہا کہ مشتعل طلباء مشال کو تلاش کر رہے تھے ۔ انہیں شک تھا کہ مشال کو میں نے اپنے کمرے میں چھپا رکھا ہے جس پر انہوں نے میرے کمرے کے شیشے اور الماریاں توڑ دیں ۔ میرا موبائل فون بھی چھین لیا ۔ مجھے مارنے کی کوشش کی مگر میں گاڑی میں بیٹھ کر ایڈمن بلاک پہنچا میں نے انتظامیہ کو طلباء کی شکایت کی اور کہا کہ کسی بھی طرح کوشش کرکے مشال کو بچایا جائے وہاں پر ڈاکٹر سعید اسلام نے مجھے بتایا کہ مشال کو شہید کر دیا گیا ہے ۔

مجھے کہا گیا کہ آپ بھی کلمہ پڑھ کر گاڑی میں بیٹھ جائو اور ڈی ایس پی کا ڈرائیور آپ کو یونیورسٹی سے باہر نکال لے جائے گا ورنہ یہ مشتعل ہجوم آپ کو بھی قتل کر دے گا ۔ انہوں نے کہا کہ مشال خان میرا طالبعلم تھا وہ ایک جلتا چراغ تھا جسے بجھا دیا گیا ۔ مشال کے اوپر جھوٹا الزام لگایا گیا اوراس کو اپنی صفائی کا موقع دیئے بنا سزا دے دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یونیورسٹی کے پروفیسرز پر بھی افسوس ہوتا ہے وہ بہت بے حس ہیں ۔ میں پچھلے چار دنوں سے سو نہیں پایا ۔ یونیورسٹی انتظامیہ اور پروفیسر کا یہ حال ہے تو عام لوگوں کا کیا ہو گا ۔مشال سوشل ازم اور صوفی ازم کی بات کرتا تھا ۔اس کو میں کامریڈ کہتا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ مشال خان کو شہید کرنے کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے یونیورسٹی انتظامیہ نے مشال خان کو توہین رسالت کے الزام میں یونیورسٹی سے نکالے جانے کا جعلی نوٹیفکیشن جاری کیا۔

ضیاء اللہ نے کہا کہ میں آخری وقت تک یونیورسٹی میں موجود تھا اگر ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوتا تو میرے علم میں ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ٹیچنگ کے شعبے سے بہت لگائو تھا مگر اس واقعے کے بعد میں لیکچرر شپ سے استعفیٰ دیتا ہوں ۔ مشال خان کے والدین سمیت پوری پوم سے معافی مانگتا ہوں کہ میں مشال جیسے ہونہار طالبعلم کو بچا نہ سکا۔ پوری زندگی مجھے اس بات کا دکھ رہے گا ۔