مشعال خان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا،کیس کی تفصیلی رپورٹ کل سپریم کورٹ میں جمع کروا دیں گے۔ آئی جی خیبر پختونخواہ صلاح الدین محسود

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین پیر 17 اپریل 2017 13:54

مشعال خان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا،کیس کی تفصیلی رپورٹ کل سپریم کورٹ ..
پشاور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 17 اپریل 2017ء) : آئی جی خیبر پختونخواہ صلاح الدین محسود کا کہنا ہے کہ مشعال خان ، عبد اللہ اور زبیر پر نازیبا الفاظ ادا کرنے کا الزام عائد تھا۔یونیورسٹی نے معاملے پر انکوائری کا آغاز کیا اور مشعال اور اس کے دوستوں کو طلب کیا۔ انکوائری مشعال خان کے قتل سے کچھ گھنٹے پہلے شروع ہوئی ۔ مشعال اور زبیر انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے ۔

فیکلٹی کا گمان تھا کہ دونوں طلبا یونیورسٹی آئے ہی نہیں یہ اور بات ہے کہ دونوں یونیورسٹی میں ہی موجود تھے۔ عبد اللہ نے انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنے اور اپنے دوستوں پر عائد الزامات سے صاف انکار کیا۔انکوائری کے لیے پولیس سے رابطہ نہیں کیا گیا۔یونیورسٹی انتظامیہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

(جاری ہے)

عطد اللہ نے کمیٹی کے سامنے تمام الزمات کو رد کر دیا۔

عبد اللہ کے صفائی پیش کرنے تک ہنگامہ آرائی شروع ہو چکی تھی اسی لیے عبد اللہ کو صفائی کا موقع نہیں ملا۔اور ا نکوائری کے دوران ہی مشعال خان کو قتل کر دیا گیا۔مشتعل طلبا کے خلاف لاٹھی چارج کر کے 59طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ان میں ایسے طلبا بھی شامل تھے جن کے کپڑے خون آلود تھے۔ طلبا کی گرفتاری کے بعد یونیورسٹی کو خالی کروایا گیا۔ یونیورسٹی میں طلبا اور گاڑیوں کی تلاشی لی گئی جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر موجود ہے۔

پولیس نے ایف آئی آر میں بیس افراد کو نامزد کیا۔ بیس میں سے سولہ کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔مزید تفتیش کے دوران دیگر گیارہ ملزمان کی بھی شناخت کی گئی۔ واقعہ کے بعد ایف آئی اے سے مدد طلب کر لی گئی۔ سوشل میڈیا ویب سائٹس پر بہت سی ویڈیوز پر ماہرین کی رائے درکار ہے۔سوشل میڈیا پر جو کچھ چل رہا ہے زیادہ تر جھوٹ پر مبنی ہے۔آج عبد اللہ نے عدالت میں پیش ہو کر164کا بیان ریکارڈ کروایا۔

ملزموں کو ملزم سمجھوں گا اور سیاسی وابستگی میں نہیں جاﺅں گا۔وقوعہ سے قبل سوشل میڈیا پر کوئی مواد نہیں تھا بعد میں کافی آ گیا۔ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں نظم و ضبط پر لڑکوں کے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ گذشتہ دنوں میں دہشتگردی کے واقعات پر نفری کی درخواست دی گئی تھی۔ طے کیا گیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ اپنے سکیورٹی گارڈز بھرتی کرے گی۔

آئی جی کے پی کے نے مزید کہا کہ مقتول کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس نے کافی حد تک اس کیس کی تفتیش میں کامیابی حاصل کر لی ہے ،۔ تنازع کی بروقت اطلاع دی جاتی تو شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ آئی جی کے پی کے نے بتایا کہ مقدمے کی سائنسی بنیادوں پر تفتیش کی جا رہی ہے۔ کیس کی تفصیلی رپورٹ آئندہ کل سپریم کورٹ میں جمع کروا دیں گے۔

متعلقہ عنوان :