یونیورسٹی انتظامیہ نے مشعال کے خلاف بیان دینے کے لیے دباﺅ ڈالا۔ عبد اللہ کا عدالت میں بیان

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین پیر 17 اپریل 2017 13:50

یونیورسٹی انتظامیہ نے مشعال کے خلاف بیان دینے کے لیے دباﺅ ڈالا۔ عبد ..
مردان (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 17 اپریل 2017ء):عبد الولی خان یونیورسٹی میں بہیمانہ تشدد کے بعد قتل ہونے والے مشعا ل خان کے قریبی دوست اور اس کیس میں مرکزی کردار عبد اللہ نے پولیس اور عدالت کو اپنا بیان ریکارڈ کروادیا۔اپنے بیان میں عبد اللہ نے بتایا کہ مشعال خان سے دو ماہ سے گہری دوستی تھی۔ مجھے محمد عباس نامی دوست نے فون کر کے یونیورسٹی بلایا۔

یونیورسٹی پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ہم پر توہین مذہب کا الزام ہے۔ مجھے دیکھتے ہی کچھ طلبا نے مجھ پر حملہ کیا۔مجھے بچانے کے لیے ٹیچرز نے واش روم میں بند کر دیا۔ کچھ ساتھیوں نے بھی مجھے مشتتعل ہجوم سے بچایا۔عبد اللہ نے بتایا کہ مجھے 13تاریخ کو ماس کمیونیکیشن کے چئیر مین آفس میں بلوایا اور دباﺅ ڈالا کہ میں مشعال کے خلاف بیان دوں جس پر میں نے انکار کر دیا ۔

(جاری ہے)

دباﺅ قبول کرنے سے انکار پر یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبا کو مشتعل کیا کہ مشعال ، زبیر اور میں توہین مذہب کے مرتکب پائے گئے ہیں جن کی معطلی کا ہم نوٹی فکیشن بھی جاری کر رہے ہیں۔ عبد اللہ کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ہی طلبا کو اشتعال دلوایا تاکہ وہ مشعال خان کی طرف ہاسٹل جائیں۔ مشتعل طلبا نے مجھے بھی مارا پیٹا لیکن پھرمردان پولیس نے میری جان بچائی۔

عبد اللہ نے کہا کہ نہ ہی میں نے نہ ہی مشعال نے توہین مذہب کی۔مجھ پر توہین مذہب کا الزام لگایا تو میں نے کلمہ پڑھ کر سنا دیا ۔ عبد اللہ کا کہنا تھا کہ مشعال خان ایک قابل اور ہونہار طالبعلم تھا۔ مشعال کو انگلش پر مہارت حاصل تھی۔ ذرائع کے مطابق عبد اللہ کا تعلق اپر دیر کی تحصیل براول سے ہے اور عبد اللہ فی الوقت پولیس کی حفاظتی تحویل میں ہے۔

خیال رہے کہ مشعال خان نے کچھ روز قبل ہی ایک پشتو ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیا تھا جس میں مشعال خان نے انتظامیہ کے حوالے سے انکشافات کیے کہ اس یونیورسٹی میں نہ وی سی ہے نہ ہی عملہ اہل ہے۔مشعال خان نے انتظامیہ کے خلاف انٹرویو دیا تھا جس میں مشعال خان نے انتظامیہ میں موجود لوگوں کی جانب سے دو دو تین تین عہدے سنبھالنے کا بھی انکشاف کیا۔ اس انٹرویو کو آن ائیر بھی کیا گیا تھا۔