پاکستان نے بچوں بارے عالمی معاہدے پر دستخط کئے ہیں لیکن کوئی قانون سازی نہیں کی گئی، سینیٹر فرحت اللہ بابر

گزشتہ ماہ سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے بچوں کے حقوق کا بل منظور کیا تھا اور اس کمیٹی کی رپورٹ آج سینیٹ میں پیش کی جائے گی حکومت فوری طور پر اس قانون کو نافذ کرے، سیمپوزیم سے خطاب

بدھ 12 اپریل 2017 23:56

پاکستان نے بچوں  بارے عالمی معاہدے پر دستخط کئے ہیں لیکن کوئی قانون ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 اپریل2017ء) پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ پاکستان نے بچوں کے بارے عالمی معاہدے پر دستخط کئے ہیں لیکن اب تک اس بارے میں کوئی قانون سازی نہیں کی گئی اور بچوں کی ذمہ داری کا فرض نہیں نبھایا گیا حالانکہ بچوں کی آبادی کل آبادی کے نصف سے بھی زیادہ ہے۔ یہ سمپوزیم وفاقی محتسب نے اسلام آباد میں کرایا۔

اس کا موضوع بچوں کو درپیش مسائل اور اس سے نمٹنے کی حکمت عملی تھا۔،موجودہ قانون پر نظرثانی اور نیا قانون بنانا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ موجودہ قانون پر عملدرآمد کروایا جائے اور حکومت بچوں کے بارے اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئی ہے۔ ایک سیمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ گزشتہ ماہ سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے بچوں کے حقوق کا بل منظور کیا تھا اور اس کمیٹی کی رپورٹ جمعرات کے روز سینیٹ میں پیش کی جائے گی۔

(جاری ہے)

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر اس قانون کو نافذ کرے۔ انہوں نے کہا کہ کابینہ کے سامنے بچوں کے لئے انصاف کے نظام کا بل موجودہ ہے اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ کابینہ کی منظوری کے بعد یہ بل بغیر کسی تاخیر کے سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس قانون کو نافذکرے اور یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پارلیمنٹ نے کچھ نہیں کیا۔

پارلیمنٹ نے پہلے ہیں بچوں پر تشدد اور ان کے جنسی استحصال کے تحفظ کا قانون بنایا ہے۔ اس کے علاوہ دو پرائیویٹ ممبر بل بھی ہیں جن میں سے ایک یتیم بچوںکی دیکھ بھال کا ہے اور دوسرا انہیں گھریلو امداد فراہم کرنے کا ہے۔ یہ دونوں بل سینیٹ نے متفقہ طور پر منظور کئے ہیں۔ یتیم بچوں کے لئے پرائیویٹ بل سینیٹ نے پاس کیا لیکن قومی اسمبلی کو نوے روز کے اندر اسے پاس کرنا تھا لیکن اسے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے لئے رکھ دیا گیا۔

فرحت اللہ بابر نے مطالبہ کیا کہ 2012ء میں عالمی پریاڈک نظرثانی پر عملدرآمد کیا جائے کیونکہ تھوڑے عرصے بعد پاکستان نے اقوام متحدہ میں اس بارے رپورٹ جمع کرائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو بچوں کے حقوق اور ان کے وقار و احترام کے لئے خاص کورس کروائے جائیں اور قومی ٹیلی وژن پر بچوں کے پروگرام کے لئے ایک الگ چینل قائم کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کی ابتر حالت اخبار ات میں شائع رپورٹوں ظاہر ہوتی ہے اور اس سال کے پہلے تین ہفتوں ہی میں ان پر بہت تشدد کیا گیا ہے۔ ان رپورٹوں کے مطابق تین ہفتوں کے دوران بچوں پر تشدد کے 26کیسز سامنے آئے اس کا مطلب ہے کہ روزنہ ایک سے زیادہ بچوں پر تشدد ہوتا ہے اور اللہ جانے کتنے کیسز رپورٹ ہی نہیں کئے جاتے۔ انہ 26متاثرہ بچوں میں سے 19 بچیاں تھیں اور 7بچے پانچ سے پندرہ سال کی عمر کے تھے۔

جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچیاں زیادہ غیرمحفوظ ہیں۔ ان میں زیادہ تر واقعات پنجاب سے رپورٹ کئے گئے۔ ان 26 میں سے 13بچوں کے ساتھ زنا کیا گیا اور پانچ کی لاشیں ان کے آجروں کے گھر سے ملیں۔ یہ نہیں پتہ کہ کتنی ایف آئی آر اس سلسلے میں درج ہوئیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 33فیصد گھریلو کام کاج کرنے والے پاکستان میں تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ انتہائی دل دہلا دینے والے اعدادوشمار ہیں جو ریاست اور معاشرے کو خواب خرگوش سے جگا دینے کے لئے کافی ہیں۔ جن لوگوں نے اس سمپوزیم میں شرکت کی ان میں رکن قومی اسمبلی آسیہ ناصر، سینیٹر روبینہ خالد، رکن قومی اسمبلی نعیمہ کشور، وفاقی محتسب سلمان فاروقی اور سول سوسائٹی کے اراکین شامل تھے۔

متعلقہ عنوان :