فرد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں، کوئی بھی ادارہ روڈ میپ کے بغیر نہیں چل سکتا‘سید منصور علی شاہ

ریسرچ اور ڈویلپمٹ کا شعبہ ناگزیر ہے‘ لاہور ہائیکورٹ میں نافذ کئے جانے والا انٹرپرائز آئی ٹی سسٹم نظام عدل کے لئے ایک گیم چینجرثابت ہو گا یہ سسٹم ایک مو ثر اور مربوط نظام ہے جس کا سائلین کو بروقت انصاف کی فراہمی میں بڑا قلیدی کردار ہوگا‘ ہمارے پاس کوئی فیڈ بیک رپورٹنگ سسٹم نہیں تھا جس کے لئے روبوٹ کال لانچ کی جا رہی ہے جس کے ذریعے سائلین سے کاپی اور ارجنٹ سیکشن کی کاردکردگی کے متعلق فیڈ بیک لیاجائیگا‘ایم آئی ٹی کا شعبہ مکمل طور پر تبدیل کیا جارہا ہے‘ لاہورہائی کورٹ میں نئے انٹر پرائز آئی ٹی سسٹم کے افتتاح کے موقع خطاب

ہفتہ 8 اپریل 2017 23:03

فرد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں، کوئی بھی ادارہ روڈ میپ کے بغیر نہیں چل ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 08 اپریل2017ء) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ فرد نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں، کوئی بھی ادارہ روڈ میپ کے بغیر نہیں چل سکتا جس کے لئے ریسرچ اور ڈویلپمٹ کا شعبہ ناگزیر ہے‘ لاہور ہائیکورٹ میں نافذ کئے جانے والا انٹرپرائز آئی ٹی سسٹم نظام عدل کے لئے ایک گیم چینجرثابت ہو گا یہ سسٹم ایک مو ثر اور مربوط نظام ہے جس کا سائلین کو بروقت انصاف کی فراہمی میں بڑا قلیدی کردار ہوگا۔

چیف جسٹس نے ان خیالات کا اظہار لاہورہائی کورٹ میں نئے انٹر پرائز آئی ٹی سسٹم کے افتتاح کے موقع پرکیا۔یہ تقریب پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں منعقد ہوئی جس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے مزیدکہاکہ کسی بھی قسم کی اصلاحات کی کامیابی کے لئے سارے سٹیک ہولڈر کا ایک پیج پر ہونا بہت ضروری ہے۔

(جاری ہے)

میری خوش قسمتی ہے کہ انٹرپرائز آئی ٹی سسٹم کے معاملے پر تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول میرے ججز، ضلعی عدلیہ اور سب سے بڑھ کر بار کی لیڈر شپ، پولیس، اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل آفس اور پراسیکیوشن میرے ساتھ ہیں۔

انہوںنے کہا 1995 میں پہلی بار ہائیکورٹ میں کمپیوٹر آیا تو یہ اس وقت کے لحاظ سے ایک انقلابی تبدیلی تھی اور آج ہم پورے نظام کو کمپیوٹرائزڈکرنے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ نظام سے بدعنوانی کے امکانات ہیں، بے یقینی ہے کہ مقدمہ لگے یا نہیں، ریکارڈ بے ہنگم حالت میں پڑا ہے لیکن انٹر پرائز سسٹم کی بدولت پورے ریکارڈ کو ایک نئی شکل دی جا رہی ہے، اس سے ناصرف وکلاکیلئے آسانی ہو گی بلکہ اس "بابی" کی زندگی بھی بدل جائے گی جو حصول انصاف کی غرض سے عدالتوں کے چکر لگاتا ہے۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا موجودہ سافٹ ویئر ہائیکورٹ اور ضلعی عدلیہ کے کیسوں کا ڈیٹا نہیں سنبھال سکتا تھا جس کے لئے ہم نے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ سے کہا تو انہوں نے بنا کر دیا۔ فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فائلیں لانے اور لے جانے میں بھی بڑی خرابی ہوتی، جو اس سسٹم کے بعد ختم ہوجا ہیں گی۔ وکلا کی آسانی کے لئے کیسز کی ای فا ئلنگ ممکن ہو سکے گی۔

اب وکلا کا سی سی نمبر ختم کرکے شناختی کارڈ کا نمبراستعمال ہوگا۔ کوئی وکیل دوسرے وکیل کی جگہ پیش نہیں ہوسکے گا،اب وکیل اور سائل دونوں کو کیس کے سٹیٹس کی اطلاع ایس ایم ایس اور ای میل کے ذریعے موصول ہو جائے گی اور وکلااپنے کیسوں کی تعداد گھر بیٹھے دیکھ سکیں گے۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ پولیس نے جتنا کسی ملز م کا ڈیٹا اکٹھا کیا ہے وہ ہمیں مل گیا، اب جج کی عدالت میں ایک ملز م کا مکمل ڈیٹا حاصل ہوگا ہے ، یہ ایک مربوط نظام ہے جس سے سب کو فائدہ ہو گا، عدالت عالیہ میں حکم امتناعی، اراضی کے کتنے کیسز ہیں سب دستیابی ہوگی۔

وکیل کی سپریم کورٹ مصروفیت کا پتہ چل جائے گا جس سے کیس کو کال کرنے سمیت دیگر قباحتوں سے بچا جاسکے گا۔ایک سائل اپنے کیس کا سٹیٹس کسی بھی جگہ آسانی سے معلوم کرسکے گا، چاہے وہ راجن پور میں بیٹھا ہو اسے پتہ کرنے کے لیے عدالتوں کے چکر نہیں کاٹنا پڑیں گے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے لاہور ہائی کورٹ میں پبلک انفارمیشن افسر نامزد کر دیا ہے، ہم ہر معاملے میں شفافیت چاہتے ہیں، لیکن اس بات کا خیال رکھیں جج صاحبان کی ذاتی زندگی بارے میں کوئی انفارمیشن یاسوال نہیں پوچھاجاسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی فیڈ بیک رپورٹنگ سسٹم نہیں تھا جس کے لئے روبوٹ کال لانچ کی جا رہی ہے جس کے ذریعے سائلین سے کاپی اور ارجنٹ سیکشن کی کاردکردگی کے متعلق فیڈ بیک لیاجائیگا۔ایم آئی ٹی کا شعبہ مکمل طور پر تبدیل کیا جارہا ہے۔ا یم آئی ٹی کا نام تبدیل کر کے ڈائریکٹوریٹ آف ڈسڑکٹ جوڈیشری ر کھا جا رہا ہیں، اس نئے نظام کے تین بڑے شعبے ہونگے ان میں سے ایک کمپلینٹ مینجمیٹ سسٹم ہو گا جس میں شکایت کے بارے میں طریقہ کار واضح کردیا گیا ہے، انسپکشن جج اگر شکایت پر کاروائی نہیں کرتا تو پندرہ دن بعد شکایت چیف جسٹس کے پاس آجائے گی. دو سرہ شعبہ ججز کی پرفارمنس کو جا نچنے کے طریقہ کار اور ان کی ٹرینگ کے بارے میں لائحہ عمل بنائے گا اس کا تیسرا شعبہ ویل فیئر اور ڈویلپمنٹ کے نا م سے ججز کی رہائش ، ان کی بچوں کی تعلیم سمیت تمام مسائل کا حل نکالنے کے لئے کوشاں رہے گا۔

جوڈیشل افسران کی صلاحیت میں اضافہ کیلئے ڈیٹا مرتب ہوگا، اعلی تعلیم کے لئے بیرون ملک سکالر شپ بھجوا رہے ہیں۔جوڈیشل افسران پر کام کا بوجھ ہی نہیں ڈالنا بلکہ ان کی فلاح و بہبود بھی مد نظر رکھنا ہے۔ قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عمر سیف چیمہ کا کہناتھا کہ لاہور ہائی کورٹ کی سادہ نوعیت کی ویب سائٹ ہونے کے باوجود اس تک 18کروڑ بار رسائی کی گئی، ایک لاکھ 2ہزار دفعہ ہائی کورٹ کی ہیلپ لائن 1134 پر کالز کی گئیں اور محض 3ماہ میں 10ہزار افراد نے لاہور ہائی کورٹ کی ایپلیکیشن ڈاون لوڈ کی، انہوں نے کہا کہ یہ ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ لوگ انصاف کے ایوانوں کو جدید ٹیکنالوجی پر سوئچ ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس موقع پر لاہور ہائیکورٹ کے فاضل جج صاحبان، رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ سید خورشید انور رضوی، ڈی جی جوڈیشل اکیڈمی، ڈی جی ڈسٹرکٹ جوڈیشری ڈائریکٹوریٹ، ایڈوکیٹ جنرل، پروسیکیوٹر جنرل پنجاب، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل احسن بھون ،اعظم نذیر تارڑ، سیکرٹری سپریم کورٹ بار آفتاب باجوہ، وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل ملک عنائت اللہ اعوان، چیئرمین ایگزیگٹو کمیٹی پنجاب بار کونسل سید عظمت بخاری، لاہور ہائی کورٹ بار کے نائب صدر راشد جاوید لودھی ، لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر چوھدری تنویر ، جان لپٹن کی قیادت میں یورپی یونین کے وفد سمیت ورلڈ بینک کے نمائندے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سیف چیمہ اور سی سی پی او لاہور سمیت لاہور ہائی کورٹ کے آئی ٹی سیکشن کے آفیسرز اور سٹاف کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔

تقریب کے اختتام پر چیف جسٹس نے وکلارہنماوںاورلاہورہائی کورٹ کے آئی ٹی ماہرین میں شیلڈز اور سرٹیفیکیٹس بھی تقسیم کئے۔