کشمیر کونسل کو آزاد کشمیر کے ٹیکس جمع کرنے کے اختیارات آئینی نہیں ، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری

فاروق حیدرآزاد کشمیر حکومت آئینی ترامیم کے ذریعے زیادہ اختیارات دینا چاہتے ہیں تو آئینی ترامیم تو دور کی بات ہے صرف یہ نوٹیفکیشن ہی واپس لے لیں تو کشمیر کو نسل کی اجارہ داری ختم ہو سکتی ہے، سابق وزیراعظم آئینی ترامیم کی اسطرح ضرورت بھی نہیں، ہم تمام پارٹیز حکومت کے اس اقدام کی بھرپورحمایت کریں گی، وکلاء وفد سے بات چیت

جمعرات 30 مارچ 2017 17:56

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 مارچ2017ء) آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم وپی ٹی آئی کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا ہے کہ کشمیر کونسل کو آزاد کشمیر کے ٹیکس جمع کرنے کے اختیارات آئینی نہیں بلکہ 23اگست 1979 ء کو جب پاکستان اور آزاد کشمیر میں آمریت کا دور تھا ایک سیکریٹری سروسز سردار آفتاب خان کے دستخطوں سے جاری ایک نوٹیفکیشن میں یہ اختیار کشمیر کونسل کو دیا گیا تھا جس میں آزاد کشمیرحکومت کے ٹیکس جمع کرنے کے اختیارات عارضی طورکشمیر کونسل کو دئیے گئے تھے اور جس میں 20% فیصد کونسل اپنے پاس رکھے گی اور 80% فیصد حکومت آزاد کشمیر کو دے گی۔

یہ نوٹیفکیشن چونکہ جنرل حیات خان کی حکومت نے پاکستان کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے ایماء پر کیا تھا۔

(جاری ہے)

لہذا آزاد کشمیر کی یہ حکومت ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کشمیر کونسل سے یہ اختیارات واپس لے کر آزاد کشمیر حکومت کو دے سکتی ہے۔ کیونکہ نوٹیفکیشن میں ہے کہ آزاد کشمیر حکومت یہ اختیارکسی بھی وقت کشمیر کونسل سے واپس لے سکتی ہے۔اگر فاروق حیدرآزاد کشمیر حکومت آئینی ترامیم کے ذریعے زیادہ اختیارات دینا چاہتے ہیں تو آئینی ترامیم تو دور کی بات ہے صرف یہ نوٹیفکیشن ہی واپس لے لیں تو کشمیر کو نسل کی اجارہ داری ختم ہو سکتی ہے۔

آئینی ترامیم کی اسطرح ضرورت بھی نہیں۔ اس سلسلے میں ہم تمام پارٹیز حکومت کے اس اقدام کی بھرپورحمایت کریں گی۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے آج یہاں پی ٹی آئی کشمیر کے مرکزی سیکریٹیریٹ میں اسلام آباد، راولپنڈی کے کشمیری وکلاء کے ایک وفدسے ملاقات کے موقع پر بات چیت کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر وکلاء کے وفد میں راجہ مسعودالرحمان ایڈووکیٹ،سردار عاطف خلیل ایڈووکیٹ،راجہ ہارون ایڈووکیٹ،دلاور خان ایڈووکیٹ،ابرار حسین ایڈووکیٹ،چوہدری اعجاز اسلم ایڈووکیٹ،سردار محمد سلیم ندیم ایڈووکیٹ،راجہ عارف طاہرایڈووکیٹ،لیاقت علی خان ایڈووکیٹ،سردار سہیل عظمت اللہ خان ایڈووکیٹ،شیخ عرفان عزیزایڈووکیٹ،علی اکبر چغتائی ایڈووکیٹ،راجہ طاہرایوبی ایڈووکیٹ،راجہ زاہد ایڈووکیٹ،ممتاز اختر کیانی ایڈووکیٹ،منظور احمد ایڈووکیٹ،سردار عبدالوہاب ایڈووکیٹ،سردار عنصر محمود ایڈووکیٹ،راجہ عزیز الرحمان ایڈووکیٹ،،مرزا عاصم بیگ ایڈووکیٹ شامل تھے اس موقع پر پی ٹی آئی کشمیر کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات سردار امتیاز خان بھی موجود تھے۔

بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا کہ اس نوٹیفکیشن میں جہاں ٹیکس وصولی کے اختیارات کونسل کو دے دئیے گئے وہاں پر اے جی آفس(AG-Office) بھی جو کہ حکومت آزاد کشمیرکے ماتحت تھا کشمیر کونسل کو منتقل کر دیا گیا۔اسلئے اے جی آفس اور کشمیر کونسل سے ٹیکس وصولی کا اختیار ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے حکومت آزاد کشمیر واپس اپنے پاس حاصل کر سکتی ہے۔یہ سارا ڈرامہ اسلئے رچایا گیا تھا تاکہ آزاد کشمیر حکومت کے اختیارات کو محدود کیا جا سکے اور کشمیر کونسل کو 20% فیصد ٹیکس وصولی کا اختیار دے کر آزاد کشمیر کے متوازی ایک حکومت قائم کرنے کے مترادف تھا۔

یہ سب شاہ خرچیوں کے لئے کیا گیا کیونکہ جو بھی وزیر امور کشمیر آیا اس نے نہ صرف آزاد کشمیر کے عوام کے ٹیکس پر رشوت ستانی اور کرپشن کا بازار گرم کیا بلکہ اپنے حلقے کے من پسند کو نوکریاں دیں اور اسطرح آزاد کشمیر کے نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہیں اور اسکے ساتھ وہ اپنے حلقہ کے لوگوں کو نوکریاں دینے کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کے عوام کے ٹیکس کے پیسے سے ا سکیمیں بھی دے رہے ہیں اور آزاد کشمیر میں جو فرضی اسکیمیں دے رہے ہیں اسمیں بھی 25% فیصد سے 50% فیصد بھتہ وصول کرتے ہیں۔

اس سے یقینی طور پر آزاد کشمیر کے عوام کے حقوق صلب ہوئے ہیں اور اس سے نیشنل ازم کو بھی ہوا ملی۔اسلئے اس اجارہ داری کو ختم کیا جائے آزاد کشمیر کے لوگوں کو انکا حق دیا جائے فاروق حیدر صاحب ویسے تو کشمیر کونسل کے خلاف مہم چلاتے رہے ہیں آج جب انکے پاس اختیار ہے تو محض ایک نوٹیفکیشن کے خاتمے سے آزاد کشمیر کے لوگوں کا حق بحال ہو سکتا ہے۔

تو ایسا نہ کرکے وہ سیاسی غفلت کا مرتکب ہونگے۔ آج جو وہ آئین میں ترامیم کا ڈھنڈورہ پیٹتے آئینی ترامیم پر سیاسی جماعتوں سے مشورہ کر رہے ہیں اگرچہ یہ اچھا اقدام ہے۔ لیکن اس نوٹیفکیشن کو واپس لینے کے لئے نہ ہی اسمبلی کے اجلاس اور نہ کشمیر کونسل کے اجلاس کو بلانے کی ضرورت ہے یہ کام وہ خود ایک انتظامی حکم کے ذریعے کر سکتے ہیں۔لہذا وہ یہ اقدام دیر لگائے بغیر اٹھائیں ورنہ وہ جو کہتے رہے ہیں وہ سب ایک ڈھونگ ثابت ہو گا۔

متعلقہ عنوان :