عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور بدلتے رجحانات کی وجہ سے موجودہ ورلڈ آرڈر تبدیل ہو جائیگا‘ روس، چین اور افریقہ سے نئی طاقتیں ابھریں گی۔ مغرب اور امریکہ عالمی قیادت سے خود ہی دستبردار ہوتے نظر آ رہے ہیں‘ امریکہ اور یورپ میں نسل پرستی پروان چڑھ رہی ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے بعد نئے اتحاد بنیں گے اور کچھ علاقائی تنظیمیں ٹوٹ جائیں گی‘ سی پیک منصوبے کی بدولت پاکستان ایشیا‘ افریقہ، مشرق وسطیٰ اور سینٹرل ایشیاء کے درمیان رابطے کا مرکز بنے گا‘ تبدیلیوں کے پیش نظر جموں و کشمیر کے عوام مسئلہ کشمیر کا پرامن اور جمہوری حل چاہتے ہیں‘۔ یہ مسئلہ تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے

صدر آزاد کشمیر سردار مسعود کا نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں دنیا کے 29 ممالک کے زیر تربیت فوجی افسران کے گروپ اور فیکلٹی ممبران سے خطاب

جمعرات 30 مارچ 2017 16:20

مظفرآباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 30 مارچ2017ء) صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور بدلتے رجحانات کی وجہ سے موجودہ ورلڈ آرڈر تبدیل ہو جائے گا۔ روس، چین اور افریقہ سے نئی طاقتیں ابھریں گی۔ مغرب اور امریکہ عالمی قیادت سے خود ہی دستبردار ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں نسل پرستی پروان چڑھ رہی ہے۔

برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے بعد نئے اتحاد بنیں گے اور کچھ علاقائی تنظیمیں ٹوٹ جائیں گی۔ سی پیک منصوبے کی بدولت پاکستان ایشیا، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور سینٹرل ایشیاء کے درمیان رابطے کا مرکز بنے گا۔ ان تبدیلیوں کے پیش نظر جموں و کشمیر کے عوام مسلہٴ کشمیر کا پرامن اور جمہوری حل چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ مسلہٴ تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل یو این چارٹر کے باب ششم کے تحت اقدام اٹھا کر اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کریں۔ موجودہ صورتحال میں کشمیر کو خودمختار بنانے کا نظریہ قابل عمل نہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں الحاق پاکستان یا بھارت دو ہی آپشن ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں دنیا کے 29 ممالک کے زیر تربیت فوجی افسران کے گروپ اور فیکلٹی ممبران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ آزادکشمیر ایک عبوری ریاست ہے جس میں ایک خودمختار ریاست کا ڈھانچہ موجود ہے۔ یہ ایک منفرد ریاست ہے جو صوبہ ہے نہ خودمختارریاست۔ یہاں دو ایوان مقننہ، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، صدر، وزیراعظم، ریاست کا اپنا جھنڈا اور قومی ترانہ ہے۔ لیکن ہمارا دفاع، خارجہ امور، مواصلات، کرنسی کے شعبے پاکستان کے پاس ہیں۔

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہم نے استصواب رائے کے جمہوری عمل سے الحاق کا فیصلہ کرنا ہے۔ 1947 میں اس حصے کے لوگوں نے جنگ لڑ کر آزادی حاصل کی اور پھر معاہدہ کراچی کے تحت پاکستان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں عارضی سیٹ اپ اس لیے قائم کیا گیا تاکہ وادی، جموں، لداخ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔

کشمیری قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمارا مسلہٴ بین الاقوامی قانون کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ مسلہٴ کشمیر دو طرفہ نہیں چہار طرفہ ہے۔ اس میں کشمیری عوام اور اقوام متحدہ کی صورت میں عالمی برادری بھی فریق ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 8 ماہ کے دوران بھارتی قابض افواج نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کے خلاف خطرناک جنگی حربے استعمال کیے۔

سینکڑوں افراد کو شہید اور سینکڑوںکو اجتماعی طور پر بصارت سے محروم کر دیا گیا۔ لیکن دنیا سیاسی اور معاشی مصلحت کے تحت خاموش ہے۔ اس کے باوجود کسی بیرونی مدد کے بغیر ظلم کے شکار کشمیری لڑکے لڑکیاں مظالم کی کہانی اور تصویر باہر بھیجنے میں کامیاب ہوئے اور ہم ان کا دکھ درد جان سکے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی نظام چند اصولوں اور اقدار پر مبنی ہے۔

اگر انہیں چھوڑا گیا تو یہ نظام ملیامیٹ ہو جائے گا۔ بھارت دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے مسلہٴ کشمیر حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ بھارت اس وقت دنیا بھر میں اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ جس کی فوج جدید ترین اسلحہ سے لیس ہے۔ بطور فوجی افسران آپ بخوبی جانتے ہیں ہیں کہ مسلہٴ کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں نکل سکتا۔ آپ حضرات اپنے ملک میں جا کر بتائیں کہ کشمیر دنیا کا خوبصورت ترین خطہ ہے جہاں لوگوں کو حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے پر گولی مار دی جاتی ہے۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ کشمیر کا مسلہٴ کوئی سرحدی تنازعہ نہیں ہے۔ 85 ہزار مربع کلومیٹر رقبے اور دو کروڑ آبادی کے حق خودارادیت اور حاکمیت کا مسلہٴ ہے جس سے کسی صورت صرف نظر نہیں کیا جا سکتا