یقین ہے کہ جج صاحبان عدالت عظمیٰ کو مزید مضبوط کریں گے، جسٹس امیر ہانی مسلم

جمعرات 30 مارچ 2017 16:15

یقین ہے کہ  جج صاحبان عدالت عظمیٰ  کو مزید مضبوط کریں گے، جسٹس امیر ہانی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 30 مارچ2017ء) سپریم کورٹ کے ریٹائر ہونیوالے جج جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا ہے کہ مجھے یقین کامل ہے کہ جسٹس میاں ثاقب نثار، چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان عدالتِ عظمیٰ اس ادارے کو مزید مضبوط کریں گے اور وہ اُمیدیں جو عوام نے اس ادارے سے منسلک کر رکھی ہیں وہ اس پر پورا اُتریں گے، دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ادارے کے لئے آسانیاں پیدا کرے، ہمارا ادارہ اسی طرح انصاف کو عام آدمی تک پہنچاتا رہے، میری ریٹائرمنٹ کی زندگی میں اللہ تعالیٰ میرے اور میرے خاندان کے لئے دُنیا اور آخرت میں آسانیاں پیدا کرے۔

اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جس نے مجھے اس اعلیٰ مقام سے نوازا اور ہر مشکل وقت میں میرے لئے آسانیاں پیداکیں۔

(جاری ہے)

میں ان تمام لوگوں کا جنہوں نے مجھ سے متعلق تعریفی کلمات کہے ان کا بھی تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔وہ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کررہے تھے ۔انہوں نے کہاکہ میں کوٹری شہر میں پیدا ہوا اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں سے حاصل کی۔ میں نے گریجویشن گورنمنٹ کالج حیدر آبادسے کی اور لاء کی سند کراچی سے حاصل کی۔

میں اپنے چھ بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا میرے والد 1964ء میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اُس وقت میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ میرے سب سے بڑے بھائی محمد شفیق احمد نے ہم سب بھائیوں کی کفالت کی اور اُن کی شفقت نے مجھے یہاں تک پہنچایا۔ دورانِ تعلیم میں نے ایک طلبہ تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی جس کی وجہ سے میرے بڑے بھائی پریشان تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر میں نے سیاست میںقدم رکھا تو میں نوکری نہیں کر پاؤں گا۔

لہذا انہوں نے کہا کہ میں وکالت کے شعبے کو اپنا لوں تا کہ دورانِ سیاست اگر میں کبھی جیل جاؤں تو واپسی پر میں وکالت کر سکوں ۔ اس طرح میں نے وکالت کے شعبہ میں قدم رکھا ۔ میرے خاندان میں مجھ سے پہلے نہ کوئی وکیل تھا نہ کوئی جج ۔ میں نے جب وکالت کی سند پاس کی تو میرے بھائیوں نے مجھے مرحوم خالد ایم اسحاق صاحب کے دفتر میں چھوڑ دیاجہاں پر ان کی شفقت آمیز شخصیت نے وکالت کے پیشے میں سنجیدگی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔

میں دورانِ وکالت سندھ گورنمنٹ میں لاء آفیسر رہا اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیئے۔ 27اگست2002ء میں بحیثیتِ جج،سندھ ہائی کورٹ حلف اُٹھاتے ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ میں جس خاردار رستے پہ چل نکلا ہوں وہ ہر گام آزمائش اور ہر قدم امتحان ہے لیکن بفضلِ ایزدی اِن آزمائشوں سے نبردآزما ہوتے عدالت عظمیٰ تک آ پہنچا۔ کام بظاہر مشکل نہ تھا مگر جب یہ سوچا کہ اس عدالت کا ہر فیصلہ ایک قانون اور یہ کہ اس عدالت کے بعد اس دنیا میں کوئی اور عدالت نہ ہے یہ کام مشکل تر نظر آیا۔

اس دوران میں نے اپنے محترم برادر ججز اور معزز وکلاء کی معاونت سے متعدد فیصلے کئے۔ میں برمًلا کہتا ہوں کہ بحیثیت ِ بشر مجھ سے غلطیاں بھی سر زد ہوئی ہوں گی مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ غلطیاں ارادةً اور عملاً نہ تھیں۔میں اللہ تعالیٰ سے اپنی ان کوتاہیوں کے لئے بھی معافی کا خواست گار ہوں۔آج میرے محترم رفقائے کار اور معزز وکلاء جس انداز سے مجھے الوداع کہہ رہے ہیں اس بات کا غماز ہے کہ اس امتحان اور آزمائش میں انہوں نے مجھے بغیر رعائتی نمبر دئیے کامیاب قرار دیا ہے۔

میں اسے سرمایہٴ منزل خیال کرتا ہوں۔ یہ نا انصافی ہو گی اگر اس موقع پہ میں اپنی شریکِ حیات اور بچوں کا ذکر نہ کروں جنہوں نے ناموافق حالات میں بھی میری ڈھارس بندھائی اور میرے فرائض منصبی کی انجام دہی میں میرے لئے مصائب کے بجائے آسانیاں پیدا کیں۔ میں اپنے سٹاف ممبرز کا بھی نہایت شکر گزار ہوں جنہوں نے دفتری اوقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شب و روز میرے ہمراہ مصروفِ عمل رہتے ہوئے جُملہ امور پایہٴ تکمیل تک پہنچائے۔

انہوں نے کہاکہ میں آخر میں آپ تمام حاضرین کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میرے اس ریفرنس میں شمولیت اختیار کر کے میری حوصلہ افزائی کی۔مجھے یقین کامل ہے کہ جسٹس میاں ثاقب نثار، چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان عدالتِ عظمیٰ اس ادارے کو مزید مضبوط کریں گے اور وہ اُمیدیں جو عوام نے اس ادارے سے منسلک کر رکھی ہیں وہ اس پر پورا اُتریں گے۔انہوں نے کہاکہ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ادارے کے لئے آسانیاں پیدا کرے اور ہمارا ادارہ اسی طرح انصاف کو عام آدمی تک پہنچاتا رہے۔ اور میں آپ سب لوگوں سے دعا کا خواہش مند ہوں کہ میری بعداز ریٹائرمنٹ کی زندگی میں اللہ تعالیٰ میرے اور میرے خاندان کے لئے دُنیا اور آخرت میں آسانیاں پیدا کرے۔