اقتصادی راہداری کی تکمیل کے بعد یہ خطہ دنیا کے ساتھ نئے سرے سے منسلک ہو جائے گا،صدر ممنون

سائنس دان اور انجنیئر اقتصادی راہداری کو کامیاب بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ، راہداری کے فعال ہو جانے کے بعد خطے میں نئی ٹیکنالوجیز آئیں گی اور نئے کاروبار شروع ہو ں گے، اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہمیں بڑی تعداد میں افرادی قوت کی ضرورت ہوگی ،مقصد کے لیے پاکستان کے تعلیمی اداروں کو چین اور دنیا کے دیگر حصوں میں علوم و فنون کے اداروں کے ساتھ مشترکہ منصوبے شروع کر نے چاہییں، صدرمملکت ممنون حسین کا سیمینار سے خطاب

بدھ 29 مارچ 2017 19:40

اقتصادی راہداری کی تکمیل کے بعد یہ خطہ دنیا کے ساتھ نئے سرے سے منسلک ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 29 مارچ2017ء) صدرمملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کی تکمیل کے بعد پاکستان اور یہ خطہ دنیا کے ساتھ نئے سرے سے منسلک ہو جائے گا۔اس سلسلے میں سائنس دان اور انجنیئر اقتصادی راہداری کو کامیاب بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ راہداری کے فعال ہو جانے کے بعد خطے میں نئی ٹیکنالوجیز آئیں گی اور نئے کاروبار شروع ہو ں گے ۔

اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ہمیں بڑی تعداد میں افرادی قوت کی ضرورت ہوگی ۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کے تعلیمی اداروں کو چین اور دنیا کے دیگر حصوں میں علوم و فنون کے اداروں کے ساتھ مشترکہ منصوبے شروع کر نے چاہییں۔وہ نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور انسٹیٹیوٹ آف انجنیئرز پاکستان کے زیر اہتمام پاک چین اقتصادی راہداری ؛ مواقع اور چیلنجز کے موضوع پر ایک سیمینار سے خطاب کررہے تھے ۔

(جاری ہے)

اس موقع پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر رانا تونیویر حسین، پاکستان میں چین کے سفیر سن دی ڈونگ اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ صدر مملکت نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کام شروع ہو جانے اور اس کی تکمیل کے بعد ہمارا ملک اور یہ خطہ بری، بحری اور فضائی ذریعوں سے پوری دنیا کے ساتھ ایک نئے طریقے سے منسلک ہو جائے گا جس کے نتیجے میں صنعت و تجارت ہی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی ایک ایسا انقلاب آجائے گا جس کی نظیر ہمیں ماضی میں نہیں ملتی۔

مواصلاتی رابطوں اور کاروباری مواقع سے بہتر طریقے سے فیض یاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے ہمیں ملک کے اندر سے ہی سائنس دان، انجینئرز اور مختلف شعبوں کے ماہرین دستیاب ہو جائیں۔ اس لیے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مستقبل میں کاروبار کی کیا صورتیں ہوں گی اور یہ نئے کاروبار کن صنعتوں اور ٹیکنالوجیز کو اس خطے میں لانے کا ذریعہ بنیں گے۔

ان موضوعات پر اسے بھی غور شروع کر دیا جائے اور بیرون ملک ان شعبوں کے ماہرین کے علاوہ خاص طور پر چینی ماہرین اور اداروں کے ساتھ اپنے قریبی روابط قائم کیے جائیں تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ہمارے نوجوان ان معاملات کو سنبھالنے کے لیے تیارہوجائیں۔صدر مملکت نے کہا کہ ہم اپنے ان مسائل پر مکمل طور پر قابو پا سکیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ امر بھی پیشِ نظر رکھا جائے کہ جو حکمتِ عملی تجویز کی جائے، اس میں اتنی لچک اور گنجائش ضرور ہو نی چاہیے جو اقتصادی راہداری کی فعالی کے بعد بھی پیش آنے والے حالات میں ہمارے کام آسکے۔

انھوں نے کہا کہ وژنری سائنس دان اور انجینئر کی حیثیت سے آپ کی دوسری اہم ترین ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے عہد کے سائنسی علوم و فنون پر آپ کی گرفت اتنی مضبوط ہو کہ اس کی مدد سے مستقبل کی سائنس و ٹیکنالوجی ،خاص طور پر پاک چین اقتصادی راہداری کے فعال ہو جانے کے بعد متعارف ہونے والی ٹیکنالوجی ، صنعتوں اور کاروبار کے لیے معاون ثابت ہونے والے ہر معاملے کا ادراک ابھی سے کیا جاسکے اور اس سے نمٹنے کی تیاری بھی شروع کی جاسکے۔

میں توقع رکھتا ہوں کہ یہ سیمینار اس سلسلے میں ایک مضبوط بنیاد فراہم کر ے گا۔صدر مملکت نے کہا کہ زندہ قوموں کے تعلیمی ادارے متحرک تھنک ٹینک کی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ ریاست کو درپیش تمام چیلنجز کو اپنی پہلی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور ان پر غور و فکر کرکے حکومت کے سامنے اپنی تحقیق اور بحث مباحثے کا نتیجہ رکھ دیتے ہیں۔ انھوں نے توقع ظاہر کی کہ وطنِ عزیز کے تعلیمی اداروں کے زیر اہتمام اس طرح کی سرگرمیاں آئندہ بھی جاری رہیں گی تاکہ پاک چین اقتصادی راہداری ہی نہیں بلکہ وطنِ عزیز کومستقبل میں پیش آنے والے دیگر مواقع اور چیلنجزسیبھی کامیابی سے عہدہ برآ ہوا جاسکے۔

اس موقع پر وفاقی وزیر رانا تنویر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہے، اقتصادی راہداری اس ترقی میں اہم کردار ادا کریگی۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں چین کے سفیر سن دی ڈونگ نے کہا کہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ اس خطے کے لیے ون بیلٹ ون روڈ وژن کا عکاس ہے ۔ اس منصوبے سے پاکستان میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا اور خطے کے تمام ممالک کے درمیاں روابط میں اضافہ ہوگا اور یہ خطہ ترقی کرے گا۔