اضافہ و ترمیم شدہ

وطن عزیز کے بہتر مستقبل اور نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے لیے یکساں مواقع کی فراہمی ضروری ہے تاکہ بچوں میں کسی قسم کا احساس محرومی پیدا نہ ہواور وہ ترقی و خوشحالی کے لیے اپنی جائز خواہشات کے مطابق کام کرسکیں صدر مملکت ممنون حسین کابچوں کی ابتدائی نگہداشت اور تعلیم کے موضوع پر پہلی قومی کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب

منگل 28 مارچ 2017 23:44

اضافہ و ترمیم شدہ
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 مارچ2017ء) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ وطن عزیز کے بہتر مستقبل اور نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے لیے یکساں مواقع کی فراہمی ضروری ہے تاکہ بچوں میں کسی قسم کا احساس محرومی پیدا نہ ہوسکے اور وہ ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنی جائز خواہشات کے مطابق کام کرسکیں۔صدر مملکت نے یہ بات وفاقی وزات تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے زیراہتمام بچوں کی ابتدائی نگہداشت اور تعلیم کے موضوع پر پہلی قومی کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

صدر مملکت نے کہا کہ جو قومیں اپنے حال میں سے کچھ وقت نکال کر مستقبل کے بارے میں غور و فکر شروع کر دیں، اٴْن کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے زیر اہتمام یہ کانفرنس اس سلسلے کی کڑی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے اس امر پر مسرت کا اظہار کیا کہ حکومت پاکستان وڑن 2025ء کے تحت ان امور پر بھر پور توجہ دے رہی ہے تاکہ آنے والی نسلوں کی بہتر تعلیم و تربیت کے ذریعے انھیں ایک اچھا شہری اور مستقبل کا معمار بنایا جا سکے اور اس مقصد کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری شعبوں سے تعلق رکھنے والے تمام افراد جمع ہو کر مربوط حکمتِ عملی کے تحت فکری ہم آہنگی کے ساتھ کام کر سکیں۔

صدر مملکت نے کہاکہ پاکستانی معاشرہ گزشتہ چند دہائیوں سے تیز رفتار تبدیلیوں کی زدمیں ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی اور بعض الیکٹرانک ایجادات نے اس رفتار کو مزید تیز کر دیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اور معاشرہ مل کر ایسے قدامات کریں جن کے ذریعے ہمارے بچے بدلتی ہوئی صورت حال سے منفی طور پر متاثر ہوئے بغیر ان ایجادات سے مستفید ہو کر اپنی اور ملک و قوم کی ترقی کے لیے مثبت کردار ادا کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی معاشرہ ایک روایتی معاشرہ رہا ہے جس میں خاندانی نظام بہت مضبوط تھا۔ اٴْس ماحول میں بچوں کی نگہداشت کے لیے والدین کے علاوہ دیگر بزرگ بھی دستیاب ہوتے تھے لیکن دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات سے ہمارا معاشرہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا جس کے نتیجے میں مضبوط خاندانی نظام کی جڑیں کمزور ہوئیں اور دادا، دادی اور نانا،نانی جیسے بزرگوں کے علاوہ گلی محلے میں بچوں پر نظر رکھنے والے بزرگ نایاب ہوتے چلے گئے جس کے سبب اب بچوں کی تربیت پرانے خطوط پربرقرار نہ رہ سکی۔

ا س لیے بچوں کی پرورش و پرداخت کے حوالے سے ہماری ذمہ داریوں میں پہلے کی نسبت اضافہ ہو گیا ہے اور یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ریاست اور معاشرہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے گہرے غور و فکر کے بعد ایک ایسا نظام وضع کرے جس میں مسلسل تبدیلیوں کے شکار معاشرے کی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔انہوں نے کہا کہ اس عہد میں خاندانی روایات کے علاوہ طرزِ زندگی میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔

یہ ان ہی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے کہ اب بچوں کی جسمانی نشوونما میں بھی ماضی کی نسبت فرق واقع ہو گیا ہے۔ طبقاتی تفریق اور آمدنی کے اعتبار سے معاشرے کے مختلف حصوں کے درمیان اونچ نیچ کی وجہ سے بہت سے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں جو قابل تشویش ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اس سلسلے میں تمام متعلقہ اداروں کو غور و فکر کر کے ایک ایسا نظام وضع کرنا چاہیے جس کے مثبت اثرات گھر سے لے کر کلاس روم تک بچوں کی تعلیم و تربیت اور نشوونما کے لے ساز گار فضا پیدا کر سکیں۔

اس موقع پر صدر مملکت نے کانفرنس میں پیش کی گئی تجاویزکی تعریف بھی کی۔صدر مملکت نے کہا کہ معاشرے سے بڑھتی ہوئی طبقاتی تقسیم کو روکنے اور روکنے کے بعد اس میں کمی لانے میں کامیاب نہ ہو سکے تو اس کے نتیجے میں ایسے گھمبیر مسائل پیدا ہوں گے ، جن سے نبرد آزما ہونا پہلے کی نسبت زیادہ مشکل ہو جائے گا۔

متعلقہ عنوان :