حکومت بجلی کی پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ سستی بجلی کی فراہمی پر بھی خصوصی توجہ دے رہی ہے،چیئر مین الیکٹریکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ یو ای ٹی

منگل 28 مارچ 2017 15:12

فیصل آباد۔28 مارچ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 مارچ2017ء) یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ کے سربراہ ڈاکٹر طاہر اظہار نے بتایا کہ پاکستان کو اس وقت 24000 میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے جبکہ ہم 22000 کی استعداد کار سے صرف 18000 میگا واٹ بجلی حاصل کر رہے ہیں ،اس طرح پاکستان کو 6000 میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے تاہم چونکہ موجودہ حکومت بجلی کی پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ سستی بجلی کی فراہمی پر بھی خاص توجہ دے رہی ہے اس لئے توقع ہے کہ اگلے سال 2018 ء تک مزید 10 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں آجائیگی،ایوان صنعت و تجارت فیصل آباد میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران انہوں نے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے بارے میں کہا کہ اس کے تحت 35 ارب ڈالر بجلی کے منصوبوں پر خرچ کئے جائیں گے جبکہ اسی طرح ترسیلی نظام کی بہتری پر بھی کام شروع کر دیا گیا ہے اور توقع ہے کہ 2028 ء تک ہماری بجلی کی پیداواری استعداد بڑھ کر 53000 میگا واٹ ہو جائیگی ،انہوں نے کہا کہ ان منصوبوں کے باوجود ہمیں ہر سطح پر بجلی کی بچت کیلئے ابھی سے مربوط کوششیں کرنا ہونگی تا کہ ہم جلد از جلد بجلی میں خود کفیل ہو سکیں، انہوںنے خاص طور پر صنعتوں میں انرجی آڈٹ کو رواج دینے کی ضرورت پر بھی زور دیا، انہوں نے کہا کہ ہم صرف اپنی عادات و اطوار میں تبدیلی سے ہی 6 سے 7 فیصد تک بجلی کی بچت کر سکتے ہیں،اس موقع پر چیمبر کے نائب صدر انجینئر احمد حسن نے کہا کہ وافر اور سستی بجلی کا حصول ناگزیر ہے تا کہ پاکستان نہ صرف عالمی منڈیوں میں حریف تجارتی ملکوں کا مقابلہ کر سکے بلکہ اندرون ملک سستی بجلی کے فوائد عام آدمی تک بھی پہنچائے جا سکیں،انہوں نے کہا کہ ساٹھ کی دہائی میںسستی پن بجلی کی وجہ سے پاکستان کے صنعتی شعبہ نے تیزی سے ترقی کی اس طرح ہماری برآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا تاہم گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے ترقی کا یہ عمل رک گیا، انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں کوئلے سے بننے والی سستی بجلی کا تناسب 60 فیصد جبکہ پاکستان میں یہ صرف اعشاریہ چار فیصد ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے بجلی کے صنعتی کمرشل اور گھریلو استعمال کی فضول خرچی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ موجودہ حالات میں ہم نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی طور پر بھی بجلی کا مزید ضیاع برداشت نہیں کر سکتے ۔ انہوں نے کہا کہ مہنگی بجلی سے تیار ہونے والی مہنگی اشیاء کی وجہ سے ہم بتدریج اپنی روائتی منڈیاں کھو رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت کی طرف سے 5 اہم برآمدی سیکٹروں کو زیرو ریٹ کرنے اور ٹیکسٹائل کیلئے 180 ارب روپے کے پیکج کے باوجود رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ کے دوران برآمدات میں کمی کا رجحان جاری ہے۔

انہوں نے اعدادوشمار کے حوالے سے بتایا کہ پرانے بلبوںکی جگہ انرجی سیور متعارف کرائے گئے جبکہ اب ایل ای ڈی لائٹس کو رواج دیا جا رہا ہے جن کے استعمال سے لوڈ شیڈنگ میں47 فیصدکمی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گرمیوں کا موسم شروع ہو چکا ہے جس کے ساتھ ہی بجلی کے استعمال میں اضافہ سے رسد اور طلب کا فرق مزید بڑھ جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ کم بجلی استعمال کرنے والے پنکھوں اور ایئر کنڈیشنرز کے ذریعے بھی 39 فیصد تک بجلی بچائی جا سکتی ہے تاہم اس کیلئے قومی سوچ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ عنوان :