صوبائی حکومت سندھی زبان و ثقافت کیلئے ادارہ قائم کرے اور سندھی زبان کو قومی زبان کا درجہ دیاجائے، سندھ سگھڑ لوک ادب تنظیم کا مطالبہ

پیر 27 مارچ 2017 21:10

حیدر آباد۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 مارچ2017ء) سندھ و بلوچستان کے سگھڑوں نے سندھی لوک ادب کو بچانے کے لیے صوبائی حکومت سے مؤثر تدابیر اختیار کرکے ایک ادارہ قائم کرنے اور سندھی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ فوک ادب ہوگا تو سندھی زبان و ثقافت بھی قائم رہے گی، قومی ادب ہر معاشرے کی تاریخ ہے۔

قومی ادب سے کنارہ کش قومیں تباہ ہو گئیں۔ ان خیالات کا اظہار سندھ سگھڑ لوک ادب تنظیم کی جانب سے جامعہ سندھ جامشورو کے ٹیچرس کلب میں دو روزہ لوک ادب کانفرنس میں سندھ و بلوچستان کے سگھڑوں نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر شیخ الجامعہ سندھ پروفیسر ڈاکٹر فتح محمد برفت نے اپنی تقریر میں کہا کہ سگھڑ عوام کی آواز ہے، جو معاشرے میں لوگوں کے رہن سہن، رسم و رواج، تاریخی روایات و لوک داستانوں کو سینہ بہ سینہ محفوظ کرتے ہوئے اپنی نئی نسل کو منتقل کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے اعلان کیا کہ جامعہ سندھ کے ہزاروں طلباء کو لوک ادب سے شناسائی کے لیے بہت جلد جامعہ سندھ کے شہید بینظیر بھٹو کنونشن سینٹر میں سگھڑ کانفرنس منعقد کرائی جائے گی، جس کی میزبانی کے فرائض جامعہ سندھ ادا کرے گی۔ ڈاکٹر برفت نے اپنے خطاب میں کانفرنس کے سگھڑوں کیلئے 10-10 ہزار روپے بطور انعام دینے کا اعلان کیا۔ ڈاکٹر برفت نے کہا کہ سگھڑ کچہری میں صنف و جمال، عقل و دانش، فطرت و ثقافت کے وہ سب رنگ ہیں جو ہمیں اپنی قدمی تہذیب کے زندہ و جاوداں ہونے کا بھرپور احساس دلاتے ہیں پیش کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ روایتی سندھی کچہری دراصل سگھڑ کچہری ہی ہے، جس میں سندھ و بلوچستان کے سگھڑوں نے الفاظ کی مالائیں پروئی ہیں اور رانو مومل، سسّی پنوں، ہیر رانجھا، عمر ماروی، سوہنی مہیوال و دیگر رومانوی داستانیں پیش کرکے ہمارے علم میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ اس سے قبل ڈپٹی کمشنر جامشورو منور علی مہیسر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سگھڑوں کے بغیر معاشرہ اور لوک ادب کے بغیر ادب ادھورا ہے۔

سگھڑوں کی لوک ادب کے لیے کی گئی خدمات قابل تحسین ہیں۔ انہوں نے محکمہ ثقافت سندھ کو سفارش کی کہ لوک ادب کے لیے کوشاں رہنے والے سگھڑوں کے لیے خصوصی فنڈز جاری کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست اور لعل شہباز قلندر و دیگر تمام درگاہوں پر میلوں میں لوک کچہریوں کے لیے فنڈز میں اضافہ کیا جائے اور ضلع سطح پر بھی سگھڑ تنظیموں کے لیے فنڈز جاری کیے جائیں۔

وفاقی اردو یونیورسٹی کے پروفیسر و لوک ادب کے ماہر ڈاکٹر کمال الدین جامڑو نے کہا کہ سندھی زبان لوک ادب سے سرشار ہے۔ لوک ادب کو یکجا و مرتب کرنے کا سہرا ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ اور ڈاکٹر عبدالکریم سندیلو کو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں نے لوک ادب کو زندہ رکھا ہے۔ حالانکہ سرکاری اداروں کی جانب سے سندھی لوک ادب پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ کانفرنس کو سندھی لینگویج اتھارٹی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عبدالغفور میمن، سوٹا کے صدر اظہر علی شاہ، ایڈووکیٹ رحمان ڈنو مہیسر، سلات کے بانی چیئرمین عاجز رحمت اللہ لاشاری، زیب نظامانی، گل حسن گل ملک، ممتاز سناسی، محمد قاسم راہموں، نیاز احمد جنجھی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ عنوان :