صوبائی اتحاد ٹرانس ایکشن نے خواجہ سراء کے حوالے سے سینٹ میں پیش کردہ بل کو مسترد کر دیا

پیر 27 مارچ 2017 23:51

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 27 مارچ2017ء)خیبر پختونخواہ میں خواجہ سراوں کے حقوق اور بہبود کے لیے کام کرنے والے صوبائی اتحاد ٹرانس ایکشن نے خواجہ سراء کے حوالے سے سینٹ میں پیش کردہ بل کو مسترد کر دیا ہے اور اس میں بہتری لانے کے حوالے سے ملک بھر میں مشاور ت کے عمل کو شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے پیپلزپارٹی کے سینٹر ڈاکٹر بابر اعوان نے جنوری 2017میں خواجہ سراوں کے حقوق کے حوالے سے ایک پرائیوٹ ممبر بل جمع کروایا تھا جس سے مشاورت کے لیے سینٹ کی فنکشل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے حوالے کردیا گیا ہے ۔

ٹرانس ایکشن خیبر پختونخواہ کی صوبائی صدر فرزانہ جان ،اور بلیووینز کے نمائندے قمرنسیم ،انایہ ھمدان اور راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی شی میل ایسوسی ایشن کی صدر الماس بوبی نے آج سینیٹ کی کمیٹی میں شرکت کی۔

(جاری ہے)

خیبر پختونخواہ کے خواجہ سراوں کی صوبائی صدر فرزانہ جان نے سینیٹ کی کمیٹی میں مجوزہ بل کے مسودہ پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ ایسا قانون قابل قبول نہیں جو آئین پاکستان میں دی گئی شحصی آزادی کی ضما نتو ں اور سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متصادم ہو۔

فرزانہ جان نے کہا کہ خواجہ سرائوں کی شناخت کے حوالے سے کوئی ایسی کمٹیی قبول نہیں جو ذہنی اور جسمانی معائینے کی بات کرتے ہو ، بصورت دیگر شناختی کارڈ دیتے وقت ہی معائنہ مردوں اور عورتوں کے لیے بھی لازمی قرار دیا جائے۔بلیووینز کے کوارڈینٹر قمرنسیم نے مجوزہ بل کے حوالے سے تنقیدی جائزہ سینٹ کی فنکشل کمیٹی کے سپرد کیا اور کہا کہ جلد بازی کی بجائے مجوزہ مسودہ کو بہتر کیا جائے اور اس حوالے ملک بھر میں خواجہ سراوں اور دیگر متعلقہ اداروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ مشاورت کا عمل شروع کیا جائے ۔

قمرنسیم نے مزید کہا کہ خواجہ سراء مرد ،عورتوں اور مخنث افراد کے معملات ایک دوسرے سے جداہیں ان کے مشاورت کے بغیر قانون سازی سے مزیدمسائل پیدا ہو ں گے۔ملک کی معروف خواجہ سراء ایکٹوسٹ انایہ زاراخیل نے کہا کہ مجوزہ قانون میں ترمیم ازحدضروری ہیں صحت ،انصاف تعلیم اور روز گار پاکستانی خواجہ سراوں کے لیے آج بھی ایک خواب کی حییثت رکھتی ہیں ۔پختونخواہ سول سوسائٹی نیٹ ورک کے کوارڈنیٹر تمیور کمال نے کہا کہ خواجہ سراوں سے متعلق کسی بھی قانون سازی کی بنیادیوگاکاٹرااصولوں کے مطابق ہونی چاہیے تاکہ ان کے حقوق کو یقینی بنایا جاسکے۔