حکومت کی کوششوں کے باوجود ٹیکسٹائل کا شعبہ مستحکم نہیں ہو پا رہا ، کپاس درامد کرنے والا بنگلہ دیش کپڑوں کا دوسرابڑا ایکسپورٹر بن چکا ہے، میاں زاہدحسین

پیر 27 مارچ 2017 15:03

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 مارچ2017ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت کی کوششوں کے باوجود سب سے زیادہ برامدات کرنے والاٹیکسٹائل کا شعبہ مستحکم نہیں ہو پا رہا ہے جبکہ دوسری طرف95 فیصد کپاس درامد کرنے والا ملک بنگلہ دیش چین کے بعددنیا میںملبوسات کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن چکا ہے۔

سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی ٹیکسٹائل کے شعبہ کو فعال دیکھنا چاہتی ہے اور اس ضمن میں اربوں روپے خرچ بھی کئے جا رہے ہیں مگر مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آ رہے جسکے لئے ساری صورتحال اور اسکے حل پر ازسرنو غور کیا جائے۔

(جاری ہے)

میاں زاہد حسین نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں برامدات میں مجموعی طور پر بیس فیصد کمی آئی ہے جو پریشان کن ہے۔

ادھر کپاس کی پیداوار بھی ڈیڑھ کروڑ گانٹھ سے گر کے ایک کروڑ گانٹھ رہ گئی ہے جس کی وجہ سے کپاس درآمد کرنی پڑ رہی ہے جس سے کاروباری لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ کپاس کے کاشتکار وں میں دیگر فصلیں اگانے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے جو تشویشناک ہے۔ جو لوگ ٹیکسٹائل کی برامدات میں اضافہ کو روپے کی قدر کم کرنے سے منسلک کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں کیونکہ اگر 2011 سے ابھی تک پاکستان اور بنگلہ دیش کی کرنسی کی قدر میں کمی کا موازنہ کیا جائے توپتہ چلتا ہے کہ ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر میں بہت کمی آئی ہے اسلئے ہماری برامدات میں خاطر خواہ اضافہ ہونا چائیے تھا جو نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا کہ چین کی ملبوسات کی سالانہ برامد اسی ارب ڈالر ہے مگر بڑھتی ہوئی کاروباری لاگت کی وجہ سے وہاں کی بہت سے کمپنیاں کپاس پیدا نہ کرنے والے ممالک بنگلہ دیش اور ویتنام منتقل ہو گئی ہے جبکہ کم از کم نصف کو پاکستان منتقل ہونا چائیے تھا مگر ہم نے یہ موقع بھی گنوا دیا گیا۔ اگر توانائی بحران ختم اور امن ا امان کی صورتحال اطمینان بخش ہو جائے تو چینی کمپنیاں پاکستان کو دیگر ممالک پر ترجیح دینگی۔

متعلقہ عنوان :