پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے بھارہ کہو ہائوسنگ سکیم کے حوالے سے ہائوسنگ فائونڈیشن سے محکمانہ انکوائری کی رپورٹ طلب کرلی

معاملے کی فوجداری تحقیقات کرکے 2 اپریل تک رپورٹ پی اے سی میں جمع کرائی جائے ،ْ کمیٹی کی نیب کو ہدایت

پیر 27 مارچ 2017 15:02

پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے بھارہ کہو ہائوسنگ سکیم کے حوالے ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 مارچ2017ء) پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے بھارہ کہو ہائوسنگ سکیم کے حوالے سے ہائوسنگ فائونڈیشن سے محکمانہ انکوائری کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے نیب کو ہدایت کی ہے کہ وہ معاملے کی فوجداری تحقیقات کرکے 2 اپریل تک رپورٹ پی اے سی میں جمع کرائے ۔پیر کو کمیٹی کا اجلاس سینیٹر مشاہد حسین سید کی زیر صدارت ہوا۔

اجلاس میں رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی ‘ شاہدہ اختر علی اور سینیٹر اعظم خان سواتی کے علاوہ متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں کیپٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ (کیڈ) کے 2011-12ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔دوران اجلاس سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ غریب سرکاری ملازمین کو زمین کی الاٹمنٹ کے نام پر لوٹا گیا۔

(جاری ہے)

ایک ارب روپیہ لوٹنے والے 10کروڑ روپے مقدمہ بازی پر لگا کر صاف شفاف ہو کر پھرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ساڑھے تین سے چار لاکھ روپے فی کنال کی بجائے 8لاکھ روپے فی کنال زمین خریدی گئی ،ْ ساڑھے تین یا چار سو کنال اراضی ہوتو یہ رقم چار ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔انہوں نے کہا کہ سرکاری خزانے سے پرائیویٹ ہائوسنگ سوسائٹیوں کو رقم کیسے دی جا سکتی ہے۔

آڈٹ حکام نے پی اے سی کو بتایا کہ ایک ہی پراجیکٹ کی زمین دو مراحل میں خریدی گئی۔ یہ منصوبہ 2009ء میں شروع ہوا‘ تین ہزار کنال زمین 9 لاکھ 50 ہزار روپے کے حساب سے خریدی گئی۔ یہ رقم 2 ارب 50کروڑ بنتی ہے۔ جس میں سے ایک ارب 85کروڑ رقم کنٹریکٹر کو ادا کردی گئی۔ زمینی حقائق اور شواہد کے مطابق یہ زمین 75 ہزار سے ایک لاکھ روپے کنال تک تھی۔ 2013ء میں اس کی تحقیقات شروع ہوئی۔

معاملہ نیب میں بھی رہا۔ نیب ‘ ہائوسنگ فائونڈیشن اور کنٹریکٹر کے درمیان طے پایا کہ اس کی کریمنل انویسٹی گیشن نہیں کی جائے گی۔ انہوںنے کہاکہ معاملہ کی کریمنل انویسٹی گیشن ہونی چاہئے اور تمام حقائق پی اے سی کے سامنے آنے چاہئیں۔ پی اے سی کے استفسار پر آڈٹ حکام نے بتایا کہ کنٹریکٹر گرین لمیٹڈ کمپنی ہے ،ْ سیکرٹری ہائوسنگ شاہ رخ ارباب نے کہا کہ 2009ء میں ہائوسنگ فائونڈیشن نے بھارہ کہو فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہائوسنگ سکیم فیز I کے لئے حفیظ عباسی کے ساتھ زمین کی خریداری کا معاملہ کیا۔

جس کے تحت اس نے 23 لاکھ روپے فی کنال میں مکمل پلاٹ دینا تھا۔ بعد ازاں معاملہ عدالت میں چلا گیا۔ فیز ون کی ساری زمین ہائوسنگ فائونڈیشن کو ٹرانسفر بھی ہوگئی۔ سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا جو کئی سال تک زیر سماعت رہا۔ سپریم کوٹ نے فیصلہ دیا کہ 23لاکھ فی کنال کے حساب سے تیار پلاٹ دینے ہیں۔ مگر کنٹریکٹر نے اس قیمت میں زمین دینے سے انکار کردیا۔

ڈی جی ہائوسنگ وقاص علی نے کہا کہ اس کنٹریکٹر کو دو سال قبل ہم نے سوا ارب روپے کا جرمانہ کرکے بلیک لسٹ کردیا۔ نیب نے کوشش کی یہ معاہدہ بحال کرایا جائے۔ سینیٹ کی ذیلی کمیٹی اس معاملے کا تفصیلی جائزہ لے چکی ہے۔ بحریہ ٹائون سے راستہ دینے کے لئے ہم نے کارروائی کی مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ پی اے سی کے ارکان ڈاکٹر عارف علوی ‘ شاہدہ اختر علی اور کمیٹی کے کنوینئر نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ایک لاکھ کنال مالیت کی زمین پر ڈویلپمنٹ چارجز کی مد میں 22لاکھ روپے فی کنال کا معاہدہ کیا گیا۔

ڈی جی ہائوسنگ نے کہا کہ محکمانہ انکوائری کرکے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی۔ بلا شبہ ساڑھے 9 لاکھ فی کنال میں خریداری ہوئی ہے۔ ہائوسنگ فائونڈیشن کو نوٹس لینا چاہئے تھا۔ اعظم سواتی نے کہا کہ ساری زمین کے 800 سے 900 پلاٹ بن سکتے تھے اس کے 3200 پلاٹ نہیں بن سکتے تھے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈی جی نیب کو طلب کرکے باز پرس کی جائے۔نیب کی طرف سے رائو محمد سلیم خان نے بتایا کہ نیب نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کارروائی کی جس میں ٹیم کو بحال کرنے کا حکم دیا گیا اس لئے ہم نے اس میں اپنا کردار ادا کیا۔

پہلے زمین کی قیمت کم تھی مگر موجودہ قیمت کو مد نظر رکھتے ہوئے نقصان نہیں تھا۔ ڈاکٹر علوی نے کہا کہ پہلے ہی زیادہ قیمت ادا کی گئی، محکمہ نے اپنی انکوائری کیوں نہیں کی ۔ سیکرٹری ہائوسنگ نے بتایا کہ اس معاہدے میں سابق سیکرٹری جی ایم سکندر اور کمیٹی کے دیگر ارکان تھے۔ پی اے سی نے اس حوالے سے ہائوسنگ فائونڈیشن سے محکمانہ انکوائری کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے نیب کو حکم دیا کہ نیب اس معاملے کی فوجداری تحقیقات کرکے 2 اپریل تک رپورٹ پی اے سی میں جمع کرائے۔

متعلقہ عنوان :