اٹھارویں ترامیم میں پارٹی سربراہان کوزیادہ اختیارات دے دیئے گئے ، چیئرمین سینیٹ رضا ربانی

مگر جب یہ ترامیم ہو رہی تھیں اس وقت ہارس ٹریڈنگ کا ماحول تھا جبکہ ابھی تک سیاسی نظام میں سنجیدگی نہیں آئی کہ پارلیمنٹ اس میں تبدیلی کر سکے گی فیصلہ کیا ہے کہ سینیٹ میں موجود رہوں اور فوجی عدالتوں کے بل کی مخالفت کروں،سخت فیصلوں کے لئے قیادت کا دیانیدار ہونا بہت ضروری ہے میری بزدلی یا لالچ تھی کہ میں نے سینیٹ سے استفعی نہیں دیا۔ اب چوں کہ بل میرے دستخط سے ہی صدر مملکت کے پاس جائے گا، تقریب سے خطاب

اتوار 26 مارچ 2017 21:00

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 مارچ2017ء) چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے کہا کہ اٹھارویں ترامیم میں پارٹی سربراہان کوزیادہ اختیارات دے دیئے گئے مگر جب یہ ترامیم ہو رہی تھیں اس وقت ہارس ٹریڈنگ کا ماحول تھا جبکہ ابھی تک سیاسی نظام میں سنجیدگی نہیں آئی کہ پارلیمنٹ اس میں تبدیلی کر سکے گی۔ میری بزدلی یا لالچ تھی کہ میں نے سینیٹ سے استفعی نہیں دیا۔

اب چوں کہ بل میرے دستخط سے ہی صدر مملکت کے پاس جائے گا اس لئے فیصلہ کیا ہے کہ سینیٹ میں موجود رہوں اور فوجی عدالتوں کے بل کی مخالفت کروں،سخت فیصلوں کے لئے قیادت کا دیانیدار ہونا بہت ضروری ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں ڈاکٹر سید جعفر احمد کی کتاب’’پاکستان ہسٹروکل لیجیسز‘‘کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر سید جعفر پاکستان کے ان چند دانشوروں میں سے ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنا رشتہ اس سرزمین اور جہاں کے لوگوں کے ساتھ جوڑے رکھا۔انہوں نے ہر امر کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کی تحریروں سے صوبائی خودمختار ی کے اور وفاق حوالے سے بہت کچھ سیکھا۔ اس کتاب میں انہوں نے معاشرے کی بنیا دی باتوں کو اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر جعفر نے بتایا ہے کہ کس طرح ریاست نے سوچنے سمجھے منصوبے کے تحت قائدا عظم کے اقوال کوتلف کیا ۔

قائد اعظم کی کوئٹہ کے اسٹاف کالج کی تقریر کو غائب کر دیا گیا۔ اسکولوں میں ایسے مضمون پڑھائے جا رہے ہیں جہاں جمہوریت کے آٹھ اور آمریت کے گیارہ فائدے بتائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کو ریاستی پالیسی کے تحت تاریخ سے کاٹا گیا اور عوام کو فرقوں میں بانٹا گیاجبکہ اقلیتوں کو دبایا گیا۔ اب شائدریاست یہ سوچ رہی ہے کہ ماضی کی پالیسیاں غلط تھیں مگر ریاست اب بھی متبادل ریاستی پالیسی پر غور نہیں کر رہی۔

انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ سنجیدگی سے کام کرے تو تمام اسٹیک ہولڈر کے مشاورت سے کا م کیا جا سکتا ہے جب کہ لیڈر شپ کا دیانت دار ہونا بھی ضروری ہے۔ صاحب کتاب سید جعفر احمد نے کہا کہ بہت ضروری ہے کہ سیاست دان اپنی کمزوریوں کو دور کریں۔ آج جب ہم سول ملٹری تعلقات کی بات کرتے ہیں تو اس پر بھی غور کرنا ہو گا کہ سیاست دانوں میں کیا کمزوریوں ہیں ان کو اپنے حصہ کا سبق سیکھنا ہوگا۔

جمہوریت میںاس وقت تک استحکام نہیں آ سکتا جب تک سیاسی پارٹیوں میں جہوریت نہیں آتی، سیاسی جماعتیں خاندانی پارٹیاں بن چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی کور کمیٹی خاندان کے افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔یہ بنیادی خامیاں ہیں جو نظام کو مضبوط نہیں ہونے دیتی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رشید رضوی نے کہا کہ ڈاکٹر جعفر اب ان چند لوگوں میں رہ گئے ہیں جو سچ لکھتے ہیں۔

15 سال کے عرصے میں جو مضامین لکھے ہیں ان میں نظریہ میں تبدیلی آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مذہبی جماعتیں پاکستان میں مذہبی ریاست اور بھارت میں سیکولر ریاست کی بات کرتی ہیں یہ تضاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے خلاف سازشیں قائد اعظم کی موجوودگی میں ہی شروع ہو گئیں تھیں بعد میں بیورو کریٹ گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس سے جمہوریت اور ملک کو نقصان ہوا اور پاکستان ترقی نہیں کر سکا۔

18ویں ترامیم میں پارٹی سربراہ کو کل اختیار دے کر غلطی کی گئی۔ سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر جعفر نے مختلف حوالوں سے تاریخ کا جائزہ لیا کہ یہاں مسلہ کیا ہے۔ آج بھی اس ملک میں جمہوریت کو چیلنجز ہیں جو فروز خان نون اور آئی آئی چندیگڑھ کے زمانے میں تھے ۔بیو کریسی اور جمہوریت میں یکسانیت ہیں ہے۔ پاکستان کثیر قومی ریاست ہے جن کی آپ اپنی زبان اور ثقافت ہے ان کو تسلیم ہونا چاہیے۔

آج سیاسی کارکنوں کے سوچنے کا وقت آ گیا ہے کہ لٹریچر کم ہو رہا ہے اس پر تو جہ دینی ہو گی تاکہ علم کے ذریعے ہر قسم کی انتہاہ پسندی کا بمقابلہ کیا جا سکے۔ زاہدہ حنا نے کہا کہ ڈاکٹر جعفرایک بڑے دانشور کے طور پر ابھرے ہیں۔ کتاب میں تاریخ تقافت اور موجودہ حالات پر تبصرہ کیا ہے۔ پاکستان ایک بند سماج میں تبدیل ہو چکا۔ جمہوریت آج بھی کمزور ہے۔

ایسے حالات میں ڈاکٹر جعفر جمہوریت کی حمایت میں لکھتے ہیں۔ ڈاکٹر طارق سہیل نے کہا کہ جعفر لوگوں کو جمع کرنے کا کام گزشتہ 15 سال سے کر رہا ہے جہاں علم و ادب کی گفتگو ہوتی ہے۔ انہوں نے کتاب میں تاریخی واقعات کو موجودہ حالات کے ساتھ جوڑا ہے۔ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہا کہ ڈاکٹر جعفر نے نعرے بازی نہیں کی بلکہ شروع سے ہی سوسائٹی کی بہتری کیلئے لکھنے پڑھنے پر توجہ دی یہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو سوسائٹی کا رخ متعین کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی لیڈر شپ کو سب سے زیادہ ایجوکیشن کی ضرورت ہے۔سب مل کر سوچیں کہ معاشرے میں قتل و غارت ختم ہو۔ان کتابوں کا ترجمہ اردو اور علاقائی زبانوں میں بھی ہونا چائے۔عورت فاونڈیشن کی مہناز رحمان نے کہا کہ ڈاکٹر سید جعفر احمد کی تحریروں سے امید پیدا ہوتی ہے۔ جعفر نے تحقیق سے ثابت کیا کہ جناح ہندوستان میں کمزور فیڈریشن چاہتے تھے مگر کانگریس نے اس کو تسلیم نہیں کیاتو برصغیر تقسیم ہوا۔ وہ عوام کی بالادستی کو مضبوط بنانا چاتے تھے ۔ ڈاکٹر ریاض نے بھی خطاب کیا۔کرامت علی نے نظامت کی۔