زرعی ملک ہونے کے باوجود رواں مالی سال کے دوران اشیائے خورد و نوش کی تجارت میں خسارہ باعث تشویش ہے ، میاں زاہد حسین

جمعرات 23 مارچ 2017 14:05

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 مارچ2017ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود رواں مالی سال کے دوران اشیائے خورد و نوش کی تجارت میں خسارہ باعث تشویش ہے ۔مالی سال 2013ء اور 2014ء میںپاکستان کی اشیائے خورد و نوش کی تجارت سرپلس تھی مگر اسکے بعد حالات بدل گئے ہیں اور خسارہ شروع ہو گیا۔

انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ فوڈ ٹریڈ میں خسارے کی وجوہات میں آبادی اور عوام کی قوت خرید میں اضافہ، ایکسپورٹ انڈسٹری کی سست روی، برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا سہل ہونا، برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا زیادہ منافع بخش ہونا، ڈیری، فیشریز اور دیگر شعبوں کی کارکردگی مین کمی، کم پیداوار اور مارکیٹنگ کی سہولیات کے فقدان شامل ہیں۔

(جاری ہے)

اقتصادی ترقی کے سبب خوراک کے شعبے میںخام مال، نیم تیار اور مکمل طور پر تیار مال کی درآمد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ بھارت اور چین سے پھلوں اور سبزیوں کی درآمد مسلسل بڑھ رہی ہے کیونکہ ان میں مقامی پھلوں اور سبزیوں کی نسبت زیادہ منافع ملتا ہے۔ چین سے چاول اور جوار بھی درآمد کیا جا رہا ہے جسکی کل مالیت بھارت سے درآمد کئے جانے والے ٹماٹر سے کم ہے جس پر تین ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔

اقتصادی راہداری کی وجہ سے چینی باشندوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ چین سے اشیائے خورد و نوش کی درآمدات میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ پھلوں، سبزیوں، گوشت اور مچھلی کی درآمد کے نئے رجحان سے قبل پاکستان میںخوراک کے شعبے میں زیادہ تر درآمدات خوردنی تیل، چائے، کافی، ویجیٹیبل آئل، مشروبات وغیر ہ پرمشتمل تھیں۔ چاول کی برآمدات کے حجم میں دس فیصد اضافہ جبکہ آمدنی میں 8.6 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے کیونکہ بھارت پاکستان سے چاول درآمد کر کے اسے اپنے نام سے بین الاقوامی منڈی میں فروخت کر رہا ہے۔

اس سلسلے میں پاکستان کو اپنے برانڈز کو متعارف کروانے اور مزید مارکیٹنگ کی ضرورت ہے کیونکہ اشیائے خورد و نوش کی کل برآمدات میں چاول کا حصہ 45 فیصد ہے۔ پاکستان سے گوشت کی اسّی فیصد برآمد چھ مسلمان ممالک کو جا رہی ہے جسے دیگر ممالک تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔