قومی اسمبلی ،اپوزیشن نے وفاقی حکومت کے صوبوں کے ساتھ رویہ غیرمنصفانہ قرار دیدیا، ایوان سے احتجاجاً واک آئوٹ

پانامہ کیس بارے فیصلہ عدالت کیلئے امتحان ہے، فیصلہ جو بھی ہو ادارے تباہ ہوں گے، پانچ سال کا بچہ بھی پاناما کیس پر بحث کررہا ہے، یہ کون سی عزت، سیاست اور احترام ہی وزیراعظم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا،افسوس کہ وزیر اعظم جس پارلیمنٹ کے ذریعے وہ اقتدار میں آئے وہ اس میں آتے ہی غائب ہوجاتے ہیں ،وفاقی حکومت وفاق کو کمزور کررہی ہے،موجودہ حکومت سندھ اور بلوچوں کو ترقیاں دینے پر راضی نہیں، قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا اظہارخیال

بدھ 22 مارچ 2017 17:43

قومی اسمبلی ،اپوزیشن نے وفاقی حکومت کے صوبوں کے ساتھ رویہ غیرمنصفانہ ..
اسلام آبا(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 22 مارچ2017ء) قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے وفاقی حکومت کے صوبوں کے ساتھ رویہ کو غیرمنصفانہ قرار دیتے ہوئے ایوان سے احتجاجاً واک آئوٹ کیا۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ پانامہ کیس کے بارے فیصلہ عدالت کیلئے امتحان ہے، فیصلہ جو بھی ہو ادارے تباہ ہوں گے، پانچ سال کا بچہ بھی پاناما کیس پر بحث کررہا ہے، یہ کون سی عزت، سیاست اور احترام ہی وزیراعظم نواز شریف نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا،افسوس کہ وزیر اعظم اس پارلیمنٹ میں آتے ہی غائب ہوجاتے ہیں جس کے ذریعے وہ اقتدار میں آئے۔

لاہور میں اربوں روپے لگ رہے ہیں مگر لوگ پھر بھی سڑکوں پر سو رہے ہیں،وفاقی حکومت وفاق کو کمزور کررہی ہے،موجودہ حکومت سندھ اور بلوچوں کو ترقیاں دینے پر راضی نہیں،لوڈشیڈنگ صرف وسطی پنجاب کی صنعتوں میں ختم ہوئی، سندھ اورکے پی کے میں آج بھی لوڈ شیڈنگ ہے۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران اظہار خیال کر رہے تھے ۔اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ وزیراعظم کہتے ہیں جلاوطنی سے بہت کچھ سیکھا لیکن انہوں نے خاک سیکھا ہے، وزیراعظم کو پارلیمنٹ نظر نہیں آتی،یہ پارلیمنٹ ان کے لئے اقتدار کی سیڑھی بنی۔

اب پارلیمنٹ سے بیزار کیوں ہیں خورشید شاہ نے مزید کہا کہ پانامہ میں چھوٹ جائیں یا بند ہوں، ادارے تباہ ہوں گے، پاناما کیس پر آج عدالت کا بھی امتحان ہے، پانچ سال کا بچہ بھی پاناما کیس پر بحث کررہا ہے، یہ کون سی عزت، سیاست اور احترام ہے، ہم کس منہ سے جمہوریت کی بات کرتے ہیں، کس منہ سے ووٹ مانگیں گے ، قائد حزب اختلاف نے وفاقی حکومت کے صوبوں کے ساتھ رویے پر احتجاج کیا اور وفاقی حکومت پر کڑی تنقید کی، انہوں نے کہا موجودہ دور حکومت میں 8000 ارب روپے قرضوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن سندھ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں آج بھی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، حکومت کہتی ہے معیشت مضبوط ہوگئی لیکن لوگ بھوکے مررہے ہیں، لاہور میں اربوں روپے لگ رہے ہیں مگر لوگ پھر بھی سڑکوں پر سو رہے ہیں، انہوں نے سوال اٹھایا ایسے میں آپ وفاق کو کیسے چلائیں گے، بنگال بھی فیڈریشن تھا، آج بھی الزام پنجاب پر لگ رہا ہے۔

وفاقی حکومت وفاق کو کمزور کررہی ہے، معیشت وہ اچھی ہے جس میں لوگوں کا پیٹ بھرے، روزگار ملے۔ موجودہ حکومت سندھ اور بلوچوں کو ترقیاں دینے پر راضی نہیں،انہوں نے کہا کہ پہلی بار سکھر بیراج سے ہزاروں کیوسک پانی چھوڑا گیا ہے، جو نہریں بند کرنی چا ہییں وہ کھول دی ہیں ، کرسی پر بیٹھ کرآپ کونظرنہیں آرہا، بلوچ اور سندھی افسروں کو تو آپ ترقی دینے کو تیار نہیں ہیں ،گلگت بلتستان اور کے پی کو ہم نے پہچان دی، آپ پختونوں کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں، عبد القادر بلوچ سے تعلق ہے انہیں دیکھ کرشرم آ جاتی ہے،وفاقی وزرا آتے نہیں عبد القادر بلوچ صرف آ کر بیٹھ جاتے ہیں، میٹرو اور اورنج ٹرینوں سے معیشت اچھی نہیں ہوتی، معیشت وہ اچھی جس میں لوگوں کو روٹی ملے،خوشحال ہوں ،خود دیکھا جناح اسپتال میں لوگ زمین پر لیٹے ہوئے تھے، لاہور میں جو ہو رہا ہے اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب ،سندھ، بلوچستان اور کے پی کے کی صنعتوں میں تکنیکی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے، لوڈشیڈنگ صرف وسطی پنجاب کی صنعتوں میں ختم ہوئی، سندھ اورکے پی کے میں آج بھی لوڈ شیڈنگ ہے،انہوں نے کہا کہ گزشتہ دور میں پنجاب حکومت نے دانش اسکول کا نعرہ لگایا مگر اج وفاق میں حکومت ہے مگر دانش سکول بند پڑے ہیں صرف الیکشن تک معاملہ تھا،اب اتنی عالمی مراعات ہیں پھربھی 19فیصد برآمدات ہیں،ہمارے دورمیں 29 فیصد تھیں،ہمارے دور میں قرضی14ہزار ارب تھے جو بڑھ کر22 ہزار ارب تک پہنچ گئے ہیں ،پھرکہتے ہیں معیشت بہت اچھی ہے،اب تو کساد بازاری بہت کم ہو چکی ہے، عالمی کساد بازاری 2008 میں شروع ہوئی تب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی ۔

اس موقع پر اپوزیشن نے وفاقی حکومت کے صوبوں کے ساتھ رویہ کو غیرمنصفانہ قرار دیتے ہوئے ایوان سے احتجاجا واک آئوٹ کیا اور کورم کی نشاندہی بھی کی،جس پر ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے گنتی کے بعد کورم پورا نہ ہونے پر ایوان کی کارروائی کچھ دیر کیلئے ملتوی کر دی ۔(آچ)