18ویں ترمیم میں بنیادی نقص دور کیا جائے،سینیٹر فرحت الله بابر

بدھ 22 مارچ 2017 16:07

18ویں ترمیم میں بنیادی نقص دور کیا جائے،سینیٹر فرحت الله بابر
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 22 مارچ2017ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت الله بابر نے کہا ہے کہ 18ویں ترمیم میں بنیادی نقص دور کیا جائے جس میں آئینی ترمیم کے لئے پارٹی پالیسی کے تحت ووٹ دینا لازمی ہے ورنہ نااہلیت ہوسکتی ہے‘ آئینی ترمیم کو پارٹی پالیسی کے تحت نہیں ضمیر کے تحت ہونا چاہئے‘ شق کے تحت دس‘ بارہ سیاسی جماعتوں کو اختیار ہے کہ وہ دبائو ڈال کر اپنی مرضی کی آئینی ترمیم کراسکتے ہیں جو خطرناک عمل ہے‘ آج نظریہ ضرورت کا احیاء کیا جارہا ہے جو شرمناک ہے‘ پارلیمنٹ اپنے اختیارات سرنڈر کررہی ہے‘ فوجی عدالتوں کی توسیع کے لئے ووٹ دینا شرمندگی کا باعث ہوگا۔

وہ ایوان بالا میں 28 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے بل پر اظہار خیال کررہے تھے ۔

(جاری ہے)

سینیٹر فرحت الله بابر نے کہا کہ آج افسوسناک دن ہے جب بھی اختیارات سرنڈر کئے گئے ہم نے ایوان میں آواز اٹھائی یہ انتہائی شرمناک ہے‘ جب بھی سیاسی جگہ فوج کے لئے چھوڑی جاتی ہے ایوان کے لئے اچھا نہیں ہے۔ نظریہ ضرورت کا اس سے قبل عدالت کے ذریعے احیاء ہوا اور آج نظریہ ضرورت کو زندہ کیا جارہا ہے میں ذاتی طور پر یہ تجویز دے رہا ہوں کہ آئندہ ایسے اقدامات کو کیسے روکا جائے۔

پارلیمنٹ نے اپنی جگہ ملٹری کورٹس کو سرنڈر کی ہے اور ایک متبادل عدالتی نظام قائم کیا جارہا ہے۔ آئینی ترامیم کا تعلق پارٹی پالیسی سے نہیں بلکہ ضمیر کے ساتھ ہونا چاہئے اٹھارویں ترمیم میں یہ شق ڈالی گئی ہے کہ آئینی ترمیم پر پارٹی پالیسی پر عمل کرنا لازمی ہے ورنہ نااہلیت ہوسکتی ہے۔ دس سے بارہ پارٹیوں کے سربراہوں سے آئینی ترمیم کرنا ایک خطرناک عمل ہے یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے صرف پارٹی لیڈر دبائو ڈال کر ترمیم کراسکتے ہیں یہ معاملہ پارٹی کی مجلس عاملہ میں اٹھائوں گا۔

اٹھارویں ترمیم میں یہ نقص ہے جس کو درست کرنے کی ضرورت ہے اس سے پارٹی کے سربراہوں کو سارا اختیار دیا گیا ہے۔ گزشتہ روز سینٹ میں 28ویں ترمیم پیش ہونے کے موقع پر جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا عطاء الرحمن ایوان سے اٹھ کر چلے گئے قبل ازیں ان کی آرمی ایکٹ میں مزہب و مسلک کے الفاظ حذف کروانے کی ترمیم کو کثرت رائے سے مسترد کردیا گیا۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما عثمان خان کاکڑ نے آئینی ترمیم کی مخالفت کی ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری اجلاس میں شریک نہ ہوسکے۔

دوسری خواندگی کے تحت اٹھائیسویں آئینی ترمیم پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ آج تک پارلیمنٹ کو آزاد و خودمختار نہیں بنایا جاسکے پارلیمنٹ کے اختیارات دوسروں کو دے دیئے ہیں۔ ججز نہیں ڈرتے ان کے ماتھے پر جنرل مشرف نے بندوق رکھی مگر وہ نہیں ڈرے ججز نے ضیاء الحق کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا ججز کو سلام پیش کرتا ہوں بزدل ہمارے حکمران ہیں جو مسلسل سمجھوتے کررہے ہیں پی سی ایل کے میچ کے لئے سب حاضر تھے ملک بھر کے عوام کو اس طرح تحفظ فراہم کیوں نہیں کیا جاتا ایک میچ کے ذریعے دعویٰ کر رہے ہیں ہم نے فتح حاصل کی کیا فتح حاصل کی کیا سارے ملک کو محفوظ کیا پارلیمنٹ کی بالادستی سے انحراف کیا جارہا ہے۔

تاریخ کو خراب کیا جارہا ہے وزیراعظم آج ایوان میں آئے ہیں ان کو ہر وقت ایوان میں آنا چاہئے ردالفساد کے نام پر ردالپختون شروع کیا گیا۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ 2015 میں بھی دکھ اور افسوس کے جذبات کے اظہار کے ساتھ بل منظور کیا گیا پھر کڑوا گھونٹ پی رہے ہیں ترامیم کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ کی کوشش کی ہے ساٹھ ہزار پاکستانیوں کی جانیں جاچکی ہیں حالات کا تجزیہ نہیں کیا جارہا کمزوریوں کو دور کرنے کا عزم دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

الفاظ کی خوبصورتی جذباتی رویہ ہوتا ہے جبکہ سیاست میں عقلی رویوں کی ضرورت ہوتی ہے معاشرے کا سب سے بڑا تضاد مذہبی انتہا پسندی ہے کچھ دہشت گردی خفیہ ہورہی ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر الیاس احمد بلور نے 28 ویں آئینی ترمیم پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ افغان سرحد بند کرنے کا فیصلہ غلط تھا پہلے روس آج ہمیں امریکہ کا ایجنٹ قرار دیا جارہا ہے افغان جنگ کے اثرات سے نمٹنے کے لئے رد الفساد آپریشن شروع کرکے فوجی عدالتیں بنا رہے ہیں اسامہ بن لادن کے مارے جانے پر ایک مفتی اٹھا اور اسے شہید قرار دے دیا جس پر خیبرپختونخوا اسمبلی میں اس وقت بشیر بلور کھڑے ہوئے اور اسامہ بن لادن کو شہید قرار دیین والے کو غدار قرار دیا بیت الله محسود کی ہلاکت پر بھی آنسو بہائے گئے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم خان نے کہا کہ ہم سب جمہوریت اور آئین کی پاسداری پر یقین رکھتے ہیں خطرے کا ادراک کرتے ہوئے فوجی عدالت بحال کررہے ہیں۔ گزشتہ روز پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی میں بھی یہ معاملہ اٹھایا گیا تھا وزیر اعظم نواز شریف نے برملا کہا کہ فوجی عدالتیں دو سال ایک سال نہیں چھ ماہ کیلئے ہوں اور ہم چھ ماہ کے عرصہ میں متبادل اصلاحات کو نفاذ کرنے کی مکمل کاوشیں کریں حکومت کا عزم واضح ہے۔ سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ ایوان بالا کو ایک بار پھر غیر معمولی حالات کے تحت غیر معمولی اقدامات کی ضرور تسے آگاہ کرتی ہوں دہشت گردی کے لئے مذہب کے نام کا غلط استعمال ہورہ اہے سینیٹرغوث بخش نیازی نے بھی بحث میں حصہ لیا۔

متعلقہ عنوان :