سوشل میڈیا توہین نہیں روک سکتا تو پھر ایسے میڈیا کی ضرورت نہیں ،ْ جسٹس شوکت صدیقی

اگلے ہفتے فیصلہ کرینگے کہ سوشل میڈیا کو برقرار رہنا چاہیے یا پھر مکمل طور پر پابندی عائد کی جانی چاہیے ،ْ سماعت کے دوران ریمارکس کچھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ،ْ متعدد مشتبہ افراد کی نگرانی کی جارہی ہے ،ْ سیکرٹری داخلہ فیس بک سے گستاخانہ مواد ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے ،ْخفیہ اداروں سے بھی میں مدد حاصل کی جارہی ہے ،ْ عدالت میں بیان

بدھ 22 مارچ 2017 15:34

سوشل میڈیا توہین نہیں روک سکتا تو پھر ایسے میڈیا کی ضرورت نہیں ،ْ جسٹس ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 مارچ2017ء) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت صدیقی نے سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کے خلاف شائع ہونے والے مواد کے خلاف دائر کی گئی درخواست کی سماعت کے دور ان کہا ہے کہ اگر سوشل میڈیا مقدس ہستیوں کی توہین کو نہیں روک سکتا تو پھر پاکستان میں ایسے میڈیا کی ضرورت نہیں ،ْاگلے ہفتے فیصلہ کرینگے کہ سوشل میڈیا کو برقرار رہنا چاہیے یا پھر مکمل طور پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سربراہی میں ہوئی۔سماعت کے دوران سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ کیس میں بہت پیش رفت ہوئی ہے اور ایک ملزم کو گرفتار کر کے ڈیوائسز برآمد کر لی گئی ہیں ،ْبرآمد ڈیوائسز کا معائنہ کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

سیکرٹری داخلہ عارف احمد خان نے عدالت کو بتایا کہ کچھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ،ْ متعدد مشتبہ افراد کی نگرانی کی جارہی ہے۔

اٴْنھوں نے کہا کہ فیس بک سے گستاخانہ مواد ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے اور ضمن میں خفیہ اداروں سے بھی میں مدد حاصل کی جارہی ہے۔اٴْنھوں نے کہا کہ اس ضمن میں مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے جس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات کے ساتھ ساتھ توہین مذہب کے قانون کے دفعات بھی لگائی گئی ہیں۔سیکرٹری داخلہ ن کہاکہ چونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے اس لیے احتیاط سے کام لے رہے ہیں جس پر بینچ کے سربراہ نے کہا کہ عدالت بھی اس ضمن میں احتیاط سے کام لے رہی ہے۔

اٴْنھوں نے کہا کہ پاکستان کی دو سرحدیں ہیں ایک جغرافیائی اور دوسری نظریاتی۔ شوکت عزیز صدیقی نے کہاکہ جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تو اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں ،ْ نظریاتی سرحد کی حفاظت کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے۔انھوں نے کہا کہ اگر نظریاتی سرحدیں نہ رہیں تو پھر جغرافیائی سرحدوں کا دفاع بھی مشکل ہے۔ بی بی سی کے مطابق درخواست گزار کے وکیل طارق اسد کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر سوشل میڈیا پر پابندی لگی تو وہ سڑکوں پر آئیں گے جس پر جسٹس شوکت عزیز نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت حکومت کو ملک میں ریفرنڈم کروانے کا بھی حکم دے سکتی ہے جس میں لوگوں سے پوچھا جائے کہ اٴْنھیں سوشل میڈیا عزیز ہے یا مقدس ہستیوں کی عزت۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ فیس بک کی انتظامیہ سے اس ضمن میں رابطہ کیا ہے اور ان کے فیصلے کا انتظار ہے۔ اٴْنھوں نے کہا کہ فیس بک کی انتظامیہ جواب دینے میں دو سے تین ہفتے لگاتی ہے۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فیس بک کی انتظامیہ کو بتادیں کہ مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کے پیجز مکمل طور پر ختم ہونے تک پاکستان میں فیس بک پر پابندی بھی عائد کی جاسکتی ہے۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ فیس بک استعال کرنے کا مالی فائدہ کس کو ہوتا ہے جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ بلا شبہ اس کا فائدہ فیس بک کی انتظامیہ کو ہی ہوتا ہے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہاکہ فیس بک کی معاشی حالت بھی بہتر ہور ہی ہے اور ہمیں ہی فیس بک پر گالیاں پڑ رہی ہیں۔اٴْنھوں نے کہا کہ اس حساس معاملے سے توجہ ہٹانے کیلئے کرکٹرز پر سٹے بازی کا الزام لگا دیا گیا ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہاکہ اگر سٹے بازی کی تحقیقات کرنے ہے تو پھر 1996 کے ورلڈ کپ سے کی جائے کہ ہم انڈیا سے ورلڈ کپ کا کوارٹر فائنل کیوں ہارے۔سماعت کے دور ان ڈی جی ایف آئی اے نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ پر قابل اعتراض مواد ڈالنے والے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا ،ْ کچھ افرادکے نام ای سی ایل میں بھی شامل کردئیے ہیں۔ جسٹس شوکت صدیقی نے ریمارکس دئیے کہ فیس بک والے مسئلہ حل نہیں کرتے توان سے کہیں ہم پاکستان میں اس کو بند کر رہے ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ کیاآپ کیادارے کی استعدادنہیں کہ گستاخی کرنیوالوں تک پہنچ سکیں ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا کہ جی ہمارے پاس اس کی صلاحیت موجود ہے۔جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے سیکریٹری داخلہ سیاستفسار کیا کہ پھر آپ ان سے معاونت کیوں نہیں لے رہی سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ ہم ان کے ساتھ کوآرڈی نیٹ کررہے ہیں،تفتیش میں معاونت لی جا رہی ہے۔

فیس بک سے گستاخانہ مواد کے خاتمہ کیلئے ہرممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ڈی جی ایف اے نے کہا کہ انکوائری مکمل ہو گئی ،ْدو دن پہلے مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔جسٹس صدیقی نے کہا کہ اگرسوشل میڈیا نبی اکرم ؐکی توہین کو نہیں روک سکتا تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔اس درخواست کی سماعت 27 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔

متعلقہ عنوان :