سینیٹ ، فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی ترمیم کی منظوری پارلیمنٹ کیلئے ’’ بھاری دن ‘‘ قرار

ل قبل ووٹ ہوا تھا،چیئرمین سینیٹ کی آنکھیں نم تھی ،آج بھی یہ دن بھاری ہے،ضیاء الحق کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا،لوگ سوال کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ ربڑ سٹمپ کیوں بنی ،یہ اگر مجبوری ہے تو اس کی ذمہ داری بھی لینی ہوگی،2سال بعد فوجی عدالتوں کی توسیع کر رہے ہیں،یہ ایک تاریخ بن رہی ہے،یہ عام دن نہیں ہے، تاریخ کا پاکستان کیلئے ایک اہم موڑ ہے،آج حقوق اپنے ہاتھ سے دوسروں کے حوالے کر رہے ہیں،کڑوے گھونٹ کی بات کر رہے ہیں ایسا نہ ہوں کہ یہ زہریلا گھونٹ بن جائے،اپنی تقدیر کے فیصلہ اپنے ہاتھ سے کرنا چاہیے پیپلزپارٹی کی سینیٹرشیری رحمان کا ایوان بالا میں آرمی ایکٹ اور 28ویں آئینی ترمیم پر اظہار خیال

بدھ 22 مارچ 2017 15:04

سینیٹ ، فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی ترمیم کی منظوری پارلیمنٹ کیلئے ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 22 مارچ2017ء) سینیٹ میں اپوزیشن کی بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی آئینی ترمیم کی منظوری کو پارلیمنٹ کیلئے ’’ بھاری دن ‘‘ قرار دے دیا،واضح رہے کہ پیپلزپارٹی اس معاملے میں عوام کو جواب دہ ہوگی،جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کو یہ اختیارات دے رہے ہیں، ایسا کریں کہ کڑوا گھونٹ زہریلہ گھونٹ ثابت نہ ہو ،سیاست کیلئے بھاری دن ہوسکتا ہے۔

بدھ کو ایوان بالا میں ان خیالات کا اظہار پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان نے آرمی ایکٹ اور 28ویں آئینی ترمیم پر اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ 2سال قبل ووٹ ہوا تھا،چیئرمین سینیٹ کی آنکھیں نم تھی ،یہ دن بہت بھاری ہے،آج بھی یہ دن بھاری ہے،ضیاء الحق کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا،لوگ سوال کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ ربڑ سٹمپ کیوں بنی ہے،یہ اگر مجبوری ہے تو اس کی ذمہ داری بھی لینی ہوگی،2سال بعد فوجی عدالتوں کی توسیع کر رہے ہیں،یہ ایک تاریخ بن رہی ہے،یہ عام دن نہیں ہے تاریخ کا پاکستان کیلئے ایک اہم موڑ ہے،آج حقوق اپنے ہاتھ سے دوسروں کے حوالے کر رہے ہیں،کڑوے گھونٹ کی بات کر رہے ہیں ایسا نہ ہوں کہ یہ زہریلا گھونٹ بن جائے،اپنی تقدیر کے فیصلہ اپنے ہاتھ سے کرنا چاہیے،دو سال قبل بھی پی پی پی نے تقریریں کیں تھیں کہ یہ فیصہ بہت بھاری ہے،ہم اس کی مخالفت نہیں کر رہے ہیں کیوں کہ مجبوری بن گئی ہے،حکومت دو سالوں میں کچھ نہ کرسکی،ترامیم میں شفافیت لانے میں پاکستان پیپلزپارٹی تنہا تھی ہمارے 9مطالبات ہیں ترامیم کے ساتھ جو مسودہ آیا ہے،پی پی پی کی مرہون منت ہے،حکومت اور ساری جماعتوں نے ہاتھ اٹھائے تھے کہ 2015 کا اصل مسودہ لے آئیں چار تبدیلیاں ہم نے کرائی ہیں۔

(جاری ہے)

قبل ازیں بحث میں حصہ لیتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ نظریہ ضرورت کا دوبارہ احیاء کیا جارہا ہے،نظریہ ضرورت کی توثیق کر رہے ہیں،دہشتگردی پاکستان کیلئے ناسور بن چکی ہے،قانون کی تبدیلی سے یہ ختم نہیں ہوگی،یہ اپنا دل خوش کرنے کی بات ہے،اس سے ملافضل اللہ و دیگر دہشتگردوں کو ڈرا نہیں سکتے،بعض لوگوں نے فوج پر الزام لگایا کہ سب قصور فوج کا ہے،اس گناہ میں ہم سب شریک ہیں،آج عدالت کا نظام فیل ہوچکا ہے تو کیا اس میں کسی آرمی کے جنرل کا قصور ہے،حکومت نے دو سال میں کیوں اقدامات نہیں اٹھائے،28ویں آئینی ترمیم تاریخ کا حصہ بنے گی اور آج ہماری ناکامی بھی تاریخ کا حصہ بنے گی۔

سینیٹر میاں عتیق نے کہا کہ حکومت اور سیاست چل رہی ہے،فوج اپنا کام کر رہی ہے،آج ہم آرمی پبلک سکول اور دیگر دہشتگردوں کے واقعات نہیں بھول سکتے،دہشتگردی ختم نہیں ہوئی،دو سالوں میں کچھ دہشتگردوں کو سزا ملی اور پھانسی دی گئی،جمہوریت کے ہم علمبردار ہیں اور رہیں گے،آج عام آدمی کو تحفظ ہے،ملک میں دہشتگردی کی نئی لہر آئی ہے،ملک میں آج بھی دہشتگرد او سہولت کار موجود ہیں،آئین کا حوالہ دیا جارہا ہے کہ اس میں تبدیلی کی جارہی ہے،آج دہشتگردوں سے لڑنا ہے،عدالتیں اس قابل ہیں کہ مقابلہ کرسکے،دو سال میں عدالتیں مضبوط بنائی جائیں تو آج فوج کی طرف دیکھنا نہ پڑتا وہ ہماری ناکامی کی باتیں کرتے ہیں،ترمیم آج کی ضرورت ہے اور ہماری مجبوری ہے،اس پر واویلا نہیں کرنا چاہیے،اپنی کوتاہیوں کو مان لینا چاہیے،ملک کی بقاء کیلئے ضروری ہے۔

سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ آج تک آمریت کے خلاف جدوجہد کی اور ویلس کاٹیں اور کورے کھائے اور آج اسی سلسلے کو دوبارہ قبول کر رہے ہیں،ناگہانی آفت ہو یا کوئی بھی مسئلہ ہو تو فوج کو بلاتے ہیں اور ابھی عدالت کے معاملات میں فوج کو بلارہے ہیں،فوجی عدالتیں ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے یہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے یہ ایک ڈسپرین کی گولی کا کام کریں گے اور اس کی بنیادوں کو ختم کرنے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے گئے،ہماری جماعت نے بھی کڑوا گھونٹ پینے سے فیصلہ کیا،یہ عدالت پر عدم اعتماد ہے اور اعلیٰ ججوں کی توہین کے مترادف ہے،کڑوے گھونٹ کو اس لئے پی رہے ہیں کہ کل ہم پر تہمت نہ آئے کہ انہوں نے دہشتگردی کے خلاف ساتھ نہیں دیا۔

سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ بجھے دل اور پریشان حال سے حکومت،عدلیہ او پارلیمانی کی زبوں حالی کا تذکرہ کرتا ہوں، آج خارجہ پالیسی،سیکیورٹی پالیسی،ہائوسنگ سکیمیں آرمی کے ذمہ ہیں،بہارہ کہو میں 70ہزار کنال زمین 8 ارب کے گھپلے سے خریدی جارہی ہے کیوں کہ اس کی ذمہ داری آرمی کے پاس نہیں ہے،عدالتوں کا نظام ٹھیک نہیں ہے،حامد سعید کاظمی کے کیس میں کمزور وکیل رکھا گیا وہ بری ہوگئے،عدالتوں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے،سول اداروں کو متحرک کرنا پڑے گا،ورنہ پارلیمان کو بھی فوج کے حوالے کیا جائے پھر دیکھ لیں کے م لک کیسے چلے گا،چیئرمین سینیٹ نے یہ الفاظ حذف کرادئیے۔

اعظم سواتی نے کہا کہ ہم ووٹ دے کر برابر کے شریک ہیں،جمہوریت کے نام پر کرپشن کا کھلواڑ ہورہا ہے حکومت اس پر بھی نظر رکھے اور کرپٹ مافیا کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے کردار ادا کرسکیں،دہشتگردی کے خاتمے کیلئے حکومت سے تعاون کر رہے ہیں،معاشی دہشتگردی کو بھی ختم کیا جائے،عوامی نظام کو مضبوط کیا جائے۔مسلم لیگ ق کے سینیٹر سعیدالحسن مندوخیل نے کہا کہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک کے حالات اتنے اچھے نہیں ہیں،آج ہم یہ کڑواگھونٹ پی لیتے ہیں لیکن کیا دو سال بعد پھر وہی حالت ہوگی،یہ ہماری نااہلی ہے،یہاں پر ووٹ بھی دیئے جارہے ہیں لیکن اعتراضات بھی کئے جارہے ہیں،پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ہم مجبور ہیں،اللہ نہ کرے دو سال بعد ہمیں یہ دوبارہ کرنا پڑے