قومی اسمبلی نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کیلئے پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2017 کثرت رائے سے منظور کرلیا

5 ارکان نے پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے حق ،ْ 4ارکان نے بل کی مخالفت میں ووٹ دیئے نعیمہ کشور خان‘ شیر اکبر خان ،ْصاحبزادہ طارق اللہ‘ جمشید احمد دستی کی ترامیم مسترد کردی گئیں مذہب اور فرقہ کے حوالے سے ہم نے وضاحت کردی ہے ،ْتوہین رسالت کے حوالے سے قانون موجود ہے ،ْوفاقی وزیر زاہد حامد غیر معمولی حالات کیلئے غیر معمولی اقدامات کسی قسم کا نظریہ ضرورت نہیں ،ْ قوم کی ضرورت ہے ،ْ وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار صرف فوجی عدالتیں بنانے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی ،ْسب سے پہلے مائنڈ سیٹ ختم کرنا ہوگا ،ْحاجی غلام احمد بلور

منگل 21 مارچ 2017 22:21

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 مارچ2017ء) قومی اسمبلی نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کیلئے پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2017 کثرت رائے سے منظور کرلیاجبکہ نعیمہ کشور خان‘ صاحبزادہ طارق اللہ‘ جمشید احمد دستی کی ترامیم مسترد کردی گئیں۔ پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں ہوا جس میں وزیراعظم نواز شریف نے بھی شرکت کی۔

اجلاس کے دور ان وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی طرف سے بل کو زیر غور لانے کی تحریک کی منظوری کے بعد سپیکر نے بل کی یکے بعد دیگرے تمام شقوں کی منظوری حاصل کی۔ 255 ارکان نے پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے حق میں جبکہ 4ارکان نے بل کی مخالفت میں ووٹ دیئے ،ْبل میں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد ‘ نعیمہ کشور خان‘ شیر اکبر خان‘ جمشید احمد دستی اور ایس اے اقبال قادری نے ترامیم پیش کیں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے ارکان کی ترامیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذہب اور فرقہ کے حوالے سے ہم نے وضاحت کردی ہے ،ْتوہین رسالت کے حوالے سے قانون موجود ہے۔

(جاری ہے)

آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل پر بات کرتے ہوئے وزیرقانون زاہد حامد نے کہا کہ ملک کو درپیش موجودہ خطرات اور سلامتی کے چیلنجز کو مد ںظر رکھتے ہوئے 2015 میں 21 ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی تھی جس میں دہشت گردی سے متعلق جرائم کے مقدمات پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت چلانے کی اجازت دی گئی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ 2015 میں بھی پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں بعض ضروری تبدیلیاں کی گئیں اور ان اقدامات کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مثبت نتائج سامنے آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2017 کے ذریعے ان خصوصی اقدامات کو مزید دو سال کی توسیع دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے تحریک پیش کی کہ پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2017ء منظور کیا جائے قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے بل کی منظوری دیدی جبکہ نعیمہ کشور خان‘ صاحبزادہ طارق اللہ‘ جمشید احمد دستی کی ترامیم مسترد کردی گئیں۔

یہ بل مختلف دہشت گرد گروپوں‘ مسلح گروپوں‘ دستوں‘ مسلح جتھوں یا ان کے افراد کی طرف سے پاکستان کی سلامتی اور سالمیت کیلئے سنگین خطرہ لاحق کرنے والی غیر معمولی صورتحال اور حالات کے پیش نظر دستور اکیسویں ترمیم ایکٹ 2015ء منظور کیا گیاجس میں پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء کے تحت دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی سماعت کا اختیار دیا گیا تھا۔ پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء میں پاکستان آرمی ایکٹ 2015ء اور پاکستان آرمی ایکٹ 2015ء کے ذریعے ضروری ترامیم بھی کی گئیں۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے رکن قومی اسمبلی حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ دہشتگردی صرف فوجی عدالتیں قائم کرنے سے ختم نہیں ہوگی بلکہ مائنڈ سیٹ کو ختم کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف لڑ رہے ہیں ،ْ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمیں دہشت گردی وراثت میں کیوں ملی ہے۔ صرف فوجی عدالتیں بنانے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی اسے ختم کرنے کے لئے سب سے پہلے مائنڈ سیٹ ختم کرنا ہوگا۔

انہوں نے نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا۔رکن قومی اسمبلی محمد اعجاز الحق نے کہا کہ دو سال قبل اے پی ایس پر حملے کے بعد پوری قومی سیاسی قیادت نے اے پی سی میں فیصلہ کیا کہ نیشنل ایکشن پلان ترتیب دینے کے ساتھ ساتھ فوجی عدالتیں قائم ہوں گی۔ یہ تاثر درست نہیں کہ افواج پاکستان سیاستدانوں کو فوجی عدالتیں بنانے پر مجبور کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مائنڈ سیٹ کس نے بتایا سب جانتے ہیں۔ اعجاز الحق نے کہا کہ فوجی عدالتیں آئینی اور جمہوری طریقہ کار کے تحت قائم کی گئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ سیمت جس ملک میں بھی دہشت گردی ہوئی وہاں سخت سے سخت قوانین بنا کر دہشت گردی کا مقابلہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا فوجی عدالتیں چلتی رہنی چاہئیں۔

دستور 28ویں ترمیم بل 2017ء اور پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2017ء پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ 2015ء میں قائم کی جانے والی فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے پر یکم جنوری کو قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈرز کا اجلاس ہوا۔ بعد ازاں سینٹ کے پارلیمانی لیڈرز اس میں شامل کئے گئے۔ سپیکر کی زیر صدارت 15 اجلاس ہوئے۔ یہ غیر رسمی کمیٹی تھی مگر سپیکر کی زیر صدارت کمیٹی نے جو اتفاق رائے پیدا کیا وہ قابل تحسین ہے۔

ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ وقت کی ضرورت تھی۔ 28 فروری کو تمام سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز کا اتفاق رائے ہوا جس کے تحت فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال کی توسیع ہوگی۔ آرمی ایکٹ اور دستور میں ترمیم کا اصل ڈرافٹ بنیاد بنایا گیا۔ ترامیم کے تحت 24 گھنٹے میں ریمانڈ لیا جائے گا۔ قانونی شہادت کا اطلاق ہوگا۔

ملزم اپنی مرضی سے وکیل کر سکے گا۔ یہ ترامیم ایوان میں پیش ہوکر بل میں شامل کی جائیں گی۔ ہم نے عدالتی اصلاحات لانے کا بھی فیصلہ کیا ہے تاکہ دو سال بعد ہماری سول عدالتیں اس قابل ہو سکیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے درمیان پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی بنانے پر بھی اتفاق رائے ہوا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے قرارداد تیار کرلی ہے۔ قانون منظور ہونے کے بعد قرارداد پیش کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ کام کسی نظریہ ضرورت کے تحت نہیں ہو رہا بلکہ فوجی عدالتیں قوم کی ضرورت ہے۔ امریکہ نے بھی نائن الیون کے بعد غیر معمولی اقدامات اٹھائے۔ غیر معمولی حالات کے لئے غیر معمولی اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں۔ آپریشن ردالفساد اور کراچی میں امن کے لئے فوجی عدالتوں کی ضرورت ہے اس لئے تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے پیدا کیا۔ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی نے اگر اپنا کردار ادا کیا تو دو سال بعد فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید توسیع کی ضرورت نہیں پڑے گی۔