دہشت گردی وراثت میں ملی ہے فوجی عدالتوں کی توسیع سے ختم نہیں ہوگی ،غلام محمد بلور

زبردستی فوجی عدالتیں نہیں بنی تھیں تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر بنائی ہیں،اعجاز الحق عدالتوں سے ہم پارلیمان عدالتوں و آئین اور جمہوریت کو کمزور کرنے جارہے ہیں،نفیسہ شاہ کا اسمبلی میں بیان

منگل 21 مارچ 2017 20:55

دہشت گردی وراثت میں ملی ہے فوجی عدالتوں کی توسیع سے ختم نہیں ہوگی ،غلام ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 مارچ2017ء) عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء اور ممبرقومی اسمبلی غلام محمد بلور نے کہا ہے کہ دہشت گردی ہمیں وراثت میں ملی ہے فوجی عدالتوں کی توسیع سے دہشت گردی کم نہیںہوگی ،حکمرانوں نے پختونوں کو دہشت گرد بنایا ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز قومی اسمبلی اجلاس میں دستور اٹھائیسویں ترمیم بل 2017 ء پر بات کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گردی سے لڑ رہے ہیں‘ مار بھی رہے ہیں اور مر رہے ہیں‘ دہشت گرد کا مذہب ہے اور وہ ہم سے بہتر سمجھتے ہیں ان کا ذہن مذہبی سکالروں نے بتایا ہے جب آپ حملہ کرو گے تو اسی وقت آپ جنت میں چلے جائیں گے۔ روس ‘ چائنہ‘ آسٹریلیا ‘ یورپ ‘ امریکہ میں دہشت گردی نہیں لیکن جہاں مسلمان ہیں وہاں دہشت گردی ہے یہ ہمیں وراثت میں ملی ہے۔

(جاری ہے)

میں نے کسی ڈکٹیٹر سے ہاتھ نہیں ملایا۔ دہشت گردی ایسے ختم نہیں ہوگی اگر فوجی عدالتوں کو دو سال مزید توسیع بھی دے دیں ۔ پختون بدقسمت ہین ان کو جس سے مرضی ہے لڑا دو پختونوں کو پاکستان تسلیم نہیں کرتا ہے ہمارے حکمرانوں نے پختونوں کو دہشت گرد بنایا ہے۔ طورخم کو پہلے کبھی بند نہیں کیا گیا۔ فوجی عدالتوں کو توسیع دینے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ بھارت اور افغانستان سے تعلقات بہتر نہیں ہوں گے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی ملک میں لوگ غربت سے مررہے ہیں ہم نے آج تک فیصلہ نہیں کیا کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ فوجی عدالتوں کو توسیع دینا ہماری مجبوری ہے۔ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر کوئی عمل نہیں کیا۔ محمد اعجاز الحق نے کہا کہ دو سال پہلے اے پی ایس پر حملہ ہوا اس پر اے پی سی بلائی گئی اور فوجی عدالتیں دو سال میں بنائی گئیں 7 جنوری سے لے کر آج تک خلا پیدا ہوا ہے کہ فوجی عدالتوں کو توسیع دینی ہے کہ نہیں۔

شاہد یہ کہا جارہا ہے کہ مجبوری میں ان عدالتوں کو توسیع دی جارہی ہے ۔ دنیا کی تاریخ میں آج تک نہیں ہوا کہ ساٹھ سے ستر ہزار لوگ دہشت گردی کی وجہ سے مارے گئے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ زبردستی فوجی عدالتیں نہیں بنی تھیں تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر بنائی ہیں ۔ آئین کے اندر ترمیم کرکے ہم نے فوجی عدالتوں کو بنایا تھا ۔ جس ملک میں دہشت گردی ہوتی تو اس ملک نے سخت اقدام اٹھایا۔

امریکہ نے دہشت گردی پر سخت ترین اقدام کئے۔ ساٹھ ہزار لوگوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ فوج کے افسران شہید ہوئے ہیں۔‘ پاکستان میں جب بھی کوئی میٹنگ ہوتی ہے اس کا پتہ چل جاتا ہے میرے اوپر حملے ہوئے ہیں۔ بے نظیر بھٹو پر حملے کے دو دن بعد کی بات ہے دہشت گردوں کا ٹرائل شروع ہوا کوئی پولیس والا گواہی دینے کیلئے نہیں گیا تمام ملزمان جیلوں سے نکل گئے۔

آج کمیٹی بھی بن جائے گی جس کا وعدہ کیا گیا ہے دو مرتبہ لاہور اور کوئٹہ میں حملے ہوئے ہیں جب تک پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوجاتا فوجی عدالتوں کو چلنا چاہیے ایسا کوئی جج نہیں کہ وہ اپنی جان کو دائو پر لگا دے ہم فوجی عدالتوں کی دو سال کی توسیع کی حمایت کرتے ہیں۔ نفیسہ شاہ نے کہا کہ فوجی عدالتیں جہوری ملک میں ہوتی ہیں لیکن فوجی عدالتوں کا دائر اختیار فوج کے اندر بھی ہوتا ہے لیکن ہم ان کو پورے ملک میں لا رہے ہیں۔

بنیادی حقوق کی بھی نفی ہوگی ان عدالتوں سے ہم پارلیمان عدالتوں و آئین اور جمہوریت کو کمزور کرنے جارہے ہیں۔ پارلیمنٹ عوام کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہم غم اور دکھ کا اظہار بھی کررہے ہیں اور فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ بھی ڈالنا چاہتے ہیں۔ جب بھی آئین توڑا جاتا ہے۔ تو اس کو نظریہ ضرورت کہتے ہیں۔ نہ چاہتے ہوئے نطریہ ضرورت کے تحت فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ ڈالیں گے۔

مگرپاکستان پیپلزپارٹی نے کچھ بنیادی حقوق کیلئے شقیں سامنے رکھیں۔ 90 کی دہائی میں دہشت گردی کی عدالتیں آئیں لیکن دہشت گردی کم نہ ہوسکی۔ دہشت گردی کے بانی ضیاء الحق اور ان کی باقیات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر شیری مزاری نے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جب وزیر داخلہ دہشت گردوں کے لیڈروں سے مل رہے ہیں۔ ایس اے اقبال قادری نے کہا کہ کسی بھی نیت سے کام کرنا بہت بری بات ہے مذہب کو بدنام کرنے والے لفظ کو ختم کیا جائے جس پر وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ اصل ایکٹ 2015 ء میں پاس ہوا تھا اس کو دوبارہ پاس کیا جائے گا۔

جو کیس پینڈنگ ہوں گے ان کو آگے ٹرانسفر کردیا جائے گا۔ یوسف تالپور نے کہا کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ زہر کا گھونٹ پی رہے ہیں ہمیں ہر مسئلے کیلئے فوج کی ضرورت پڑتی ہے۔

متعلقہ عنوان :