اقوام عالم نے تسلیم کیا ہے پاکستان میں امن کیلئے بہتری آئی ہے ، چوہدری نثار علی خان

فرقہ ورانہ تنظیموں کو نرمی یا رعایت دینے کی کبھی بات نہیں کی،ملک میں دہشت گردوں اور فرقہ واریت کے خاتمہ کیلئے سیاسی جماعتوں کو مشترکہ طور پر قانون سازی میں حکومت کی معاونت کرنی چاہیے سندھ کے اندر آپریشن کا کپتان وزیراعلیٰ سندھ کو بنایا، ملک میں امن سیکیورٹی ایجنسیز اور عوام نے مل کر قائم کرنا ہے، وزیر داخلہ کا سینٹ اجلاس میں وضاحتی بیان دشت گردوں کے خلاف سخت ایکشن ہونا چاہیے قومی مفاد کو دہشت گردی پر ترجیح دی جاتی ہے،سینیٹر سحر کامران دوسرے ملکوں کی سرزمین استعمال کرنے کے لئے پاکستان میں دہشت گرد گروپ کام کررہے ہیں،ضیاء الحق کی آمرانہ پالیسی آج بھی چل رہی ہے ، سینیٹر تاج حیدر فرقے کا نام لے کر ایک مخصوص مسلک کو پروموٹ کیا جاتاہے پاکستانیوں کے خون سے کھیلا جارہا ہے افواج پاکستان نے قربانیاں دی ہیں،سینیٹر طاہر حسین مشہدی

پیر 20 مارچ 2017 21:44

اقوام عالم نے تسلیم کیا ہے پاکستان میں امن کیلئے بہتری آئی ہے ، چوہدری ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 مارچ2017ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردوں اور فرقہ واریت کے خاتمہ کیلئے سیاسی جماعتوں کو مشترکہ طور پر قانون سازی میں حکومت کی معاونت کرنی چاہیے۔ فرقہ ورانہ تنظیموں کو نرمی یا رعایت دینے کی کبھی بات نہیں کی۔ کراچی مین سندھ کے اندر آپریشن کا کپتان وزیراعلیٰ سندھ کو بنایا، ملک میں امن سیکیورٹی ایجنسیز اور عوام نے مل کر قائم کرنا ہے۔

اقوام عالم نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان میں امن کیلئے بہتری آئی ہے۔ وہ پیر کے روز ایوان بالا میں ملک میں کالعدم تنظیموں دہشت گرد گروہوں اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے حوالے سے سینیٹر سحر کامران ، تاج حیدر ، میاں بخش کریم اور خواجہ سسی پلیجو سمیت ایک سینیٹر کی وضاحت پر بیان دے رہے تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہمیں سب سے زیادہ عزیز پاکستان کا مفاد ہے ملک میں دہشت گردی خاتمہ کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو مشترکہ طور پر قانون سازی کرنا ہوگی۔

ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کسی مذہبی یا فرقہ واریت پھیلانے والی تنظیم کو اجازت نہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ کچھ لوگوں کو چوہدری نثار علی خان سے تکلیف ہے کیونکہ وہ کرپٹ لوگوں کو کوئی رعایت نہیں دیتے۔ ہمیں سچ دلیل کے ساتھ بولنا چاہیے میں نے فرقہ وارانہ تنظیموں کو نرمی دینے یا رعایت کرنے کی بات نہیں کی پچھلے دس سالوں میں کسی کو علم ہی نہیں تھا کہ اس ملک میں کتنی کالعدم تنظیمیں ہیں اور نہ ہی پچھلی دو حکومتوں نے اس پر پارلیمنٹ میں بات کی میں نے کراچی آپریشن کا CM سندھ قائم علی شاہ کو کپتان بنایا کیونکہ وہ صوبائی معاملہ تھا میں نے کبھی بھی کراچی آپریشن پر بات نہیں کی اور نہ ہی وفاقی حکوتم نے اس کا کریڈٹ لیا جب تک عوام سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسز کے ساتھ مل کر کام نہ کریں امن قائم نہیں ہوسکتا۔

ملک میں ہر روز کئی کئی دھماکے ہوتے تھے نارتھ وزیرستان سے دہشت گرد تنظیمیں کارروائیاں کرتی تھیں اب بارڈر کی دوسری طرف سے دہشت گرد کارروائیاں ہوتی ہیں اور دہشت گردی میں بہت کمی آئی ہے دنیا کہتی ہے کہ پاکستان میں امن و امان میں بہت بہتری آئی ہے کسی دہشت گرد تنظیم کا پاکستان میں ہیڈ کوارٹر نہ ہے فرقہ وارانہ تنظیموں کی لیڈر شپ جیلوں اور کیسز بھگتتے ہیں لیکن سینکڑوں اور ہزاروں کارکن ہوتے ہین ان سب کے خلاف بغیر مقدمات اور ثبوتوں کے کارروائی نہیں ہوسکتی مجھ سے مولانا سمیع الحق کی قیادت میں ایک وفد آکر ملا اس پر طوفان برپا ہوگیا یہی لوگ پچھلی حکومت میں حکومت کے عہدیداروں سے ملتے رہے الیکشن میں حصہ لیا اس وقت کوئی شور نہیں مچا میرے ساتھ ان کی ملاقات غیر ارادی طور پر بلاک شناختی کارڈ کے حوالے سے ہوئی تھی ۔

دریں اثناء سینیٹ کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں مفاہمت اور مک مکائو پالیسی کے تحت حکومتی وزراء اور ممبران سینیٹرز کی غیر حاضری کے باوجود کورم کی نشاندہی نہیں کی گئی۔ چیئرمین سینیٹ کی خاموشی 9 سینیٹرز کے ہمراہ اجلاس جاری رکھا۔ پیر کے روز سینٹ کا اجلاس مقررہ وقت پر شروع ہوا تو حکومت و اپوزیشن اراکین کی تعداد صرف 9 تھی جبکہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے علاوہ کوئی وفاقی وزیر ایوان میں نہیں تھا تلاوت کلام پاک کے بعد حکومت کے پانچ جبکہ اپوزیشن کے چار اراکین ایوان میں تھے تاہم مک مکائو پالیسی کے تحت سینیٹ میں کورم کی نشاندہی نہیں کی گئی سینیٹ میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے علاوہ 13 سیاسی جماعتیں ہیں مگر سب خاموش تھیں جبکہ 9 وزراء ممبران سینیٹرز ہیں۔

ملک میں دہشتگردی ، فرقہ ورانہ فسادات اور کالعدم تنظیموں کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے سینیٹر کامران سحر نے کہا کہ دشت گردوں کے خلاف سخت ایکشن ہونا چاہیے قومی مفاد کو دہشت گردی پر ترجیح دی جاتی ہے۔ دہشت گردوں کے مضبوط لنک ہیں وہ پاکستان کی سرزمین استعمال کررہے ہیں پاکستان کو دہشت گرد تنظیمیں نقصان پہنچا رہی ہیں پاکستان سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا اس ملک کو مستحکم کرنا ہوگا۔

ہماری ترجیح پاکستان کا ا ستحکام ہے۔ ہمیں مل کر پاکستان کو مضبوط و مستحکم ڈگر پر لانا ہوگا۔ پاکستان کو پر امن ملک بنانا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ دوسرے ملکوں کی سرزمین استعمال کرنے کے لئے پاکستان میں دہشت گرد گروپ کام کررہے ہیں اس پر پاکستان کا موقف اپنا ہے کہ ہماری زمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہوگی ۔

کالعدم تنظیمیں ہماری زمین استعمال کررہی ہیں بعض تنظیمیں کہتی ہیں کہ ہم دفاع پاکستان کا کام کررہی ہیں۔ اسلحہ کا سرعام استعمال کرتی ہیں ضیاء الحق کی آمرانہ پالیسی آج بھی چل رہی ہے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر صوبائی حکومتیں عمل درامد کرانے میں ناکام رہی ہیں۔

دہشت گردوں سے کبھی ڈرے نہیں ہیں نہ جھکیں گے اور نہ کبھی ہمت ہاریں گے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سینیٹر عبدالقیوم خان نے کہاکہ انسانوں کی جانیں لینے والے محب وطن پاکستانی نہیں ہیں ۔ فرقہ واریت کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ ملک میں فرقہ واریت کی جنگ شروع ہے۔ سینیٹر چوہدری تنویر خان نے کہا کہ مدارس اور مذہبی جماعتیں بیڈ اور گڈ طالبان کی جنگ شروع کئے ہوئے ہیں یہ ملک اسلام اور دین کے نام پر بنا ہے مگر دین پر فرقہ واریت پھیلائی جارہی ہے ایم کیو ایم کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ مسلک کے نام پر مسلمانوں کو شہید کیا یہ انتہا پسند مسلمان ہیں فرقے کا نام لے کر ایک مخصوص مسلک کو پروموٹ کیا جاتاہے پاکستانیوں کے خون سے کھیلا جارہا ہے افواج پاکستان نے قربانیاں دی ہیں ۔

سرعام مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے حکومت پاکستان نے جن جماعتوں اور فرقوں پر پابندی عائد کی ہے انہیں چندہ اور جلسہ عام کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں پر ایوان میں ان کیمرہ بریفنگ کا اہتمام کیا جائے۔ سینیٹر سلیم ضیاء نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں اور کوشش کی جائے کہ ان سے کسی قسم کا سمھجوتہ نہ کریں سینیٹر نہال ہاشمی نے کہ اکہ دہشت گردی کے حوالے سے وزارت داخلہ کو ہدف نہ بنائیں دہشت گردی سے نہیں بلکہ لوگوں کو چوہدری نثار سے تکلیف ہے پارلیمنٹ کے تمام اراکین کو بحث کرنی چاہیے۔ (عابد شاہ)