پاکستان میں کسی دہشتگرد تنظیم کانیٹ ورک یا ہیڈ کوارٹر نہیں نہ ہی کسی دہشت گرد تنظیم کو پاک سرزمین میں کام کرنے کی اجازت ہے ،ْ وزیر داخلہ

اب دہشتگردی کے نیٹ ورک سرحد پار ہیں ،ْ ملک بھر میں ہزاروں گرفتاریاں کیں ،ْ امن وامان کی بہتر صورتحال کی تعریف دنیا کررہی ہے ،ْ دہشتگرد اور فرقہ وارانہ تنظیموں میں فرق ہے کراچی کی صورتحال سب نے مل کر بہتر کی ،ْکئی لوگوں کو خواہ مخواہ پوائنٹ اسکورنگ کا شوق ہے ،ْمیری ایک غیر ارادی ملاقات پر بہت شور کیا گیا‘ جب کالعدم تنظیموں کے رہنما سابق صدر اور وزراء سے ملتے تھے تب کوئی نہیں بولا‘ سیکیورٹی کے مسئلے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے ،ْ چوہدری نثار علی خان کا سینٹ میں اظہار خیال پرائیویٹ مسلح گروپوں کو پاکستانی سرزمین پر کام کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں ہونی چاہیے ،ْسینیٹر تاج حیدر دہشت گرد ملک کے دشمن ہیں، رفاہی کام کرنے والوں میں کچھ عناصر کی وجہ سے سب کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا ،ْسینیٹر عبد القیوم کچھ لوگوں کو چوہدری نثار سے مسئلہ ہے‘ ان پر تنقید ضرور کریں ،ْ اختلاف برائے اختلاف نہ کریں ،ْ سینیٹر نہال ہاشمی

پیر 20 مارچ 2017 21:02

پاکستان میں کسی دہشتگرد تنظیم کانیٹ ورک یا ہیڈ کوارٹر نہیں نہ ہی کسی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 مارچ2017ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں کسی دہشت گرد تنظیم کانیٹ ورک یا ہیڈ کوارٹر موجود نہیں اور نہ ہی کسی دہشت گرد تنظیم کو پاک سرزمین میں کام کرنے کی اجازت ہے ،ْکسی کو علم ہے تو معلومات شیئر کریں، کارروائی کی جائے گی ،ْاب دہشتگردی کے نیٹ ورک سرحد پار ہیں ،ْ ملک بھر میں ہزاروں گرفتاریاں کیں ،ْ امن وامان کی بہتر صورتحال کی تعریف دنیا کررہی ہے ،ْ دہشتگرد اور فرقہ وارانہ تنظیموں میں فرق ہے کراچی کی صورتحال سب نے مل کر بہتر کی ،ْکئی لوگوں کو خواہ مخواہ پوائنٹ اسکورنگ کا شوق ہے ،ْمیری ایک غیر ارادی ملاقات پر بہت شور کیا گیا‘ جب کالعدم تنظیموں کے رہنما سابق صدر اور وزراء سے ملتے تھے تب کوئی نہیں بولا‘ سیکیورٹی کے مسئلے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔

(جاری ہے)

پیر کوسینٹ اجلاس کے دور ان سینیٹر سحر کامران اور دیگر ارکان کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اس ایوان میں دیئے گئے میرے گزشتہ بیان کے بعد اس بیان کو ایوان کے باہر نئے نئے معنی پہنائے گئے جس دن میں نے یہ بیان دیا تھا بہتر ہوتا اسی دن وضاحت مانگ لیتے۔ میں چیئرمین سینٹ سے یہ کہتا ہوں کہ ہمیں حقائق اور دلیل کے ساتھ سچ بولنا چاہیے‘ ایوان میں جو بات ہو اس کا ایوان میں جواب آنا چاہیے۔

اپنے بیان کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں اس لئے خود ایوان میں آیا ہوں۔ میرے سابقہ بیان کی کاپی اس ایوان میں تقسیم کی جائے اگر میں نے یہ کہا ہے کہ دہشت گردوں سے نرمی برتنی چاہیے تو جوابدہ ہوں‘ میں نے کسی کو کمتر دہشتگرد نہیں کہا ،ْ ان سینیٹرز کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہوش سے اور حقائق اور دیل سے بات کی۔ آج ہم کالعدم تنظیموں کے بارے میں دونوں ایوانوں میں بات کرتے ہیں ،ْاس معاملے پر میڈیا میں بھی بات ہوتی ہے۔

میں نے دونوں ایوانوں میں کھل کر کہا کہ سیکیورٹی سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ کراچی کی صورتحال کے حوالے سے 28 اگست 2013ء کے اخبارات نکال لیں‘ ڈاکٹر فاروق ستار نے کیا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں میں نے وزیراعلیٰ سندھ کو کپتان کہا‘ رینجرز ہیڈ کوارٹرز‘ گورنر‘ سینئر سیاسی رہنمائوں‘ وزیراعلیٰ سمیت سب سے ملاقاتیں کیں۔ میں نے سی ایم سے کہا کہ یہ صوبائی مسئلہ ہے، سب کریڈٹ آپ کا ہے، آپ صورتحال کو بہتر کریں‘ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ یہ شیئرڈ رسپانسیبلٹی ہے۔

قائم علی شاہ پر بہت دبائو تھا لیکن انہوں نے عمدہ کام کیا، فیصلے وفاقی حکومت نے کئے‘ وزارت داخلہ کا بنیادی کردار تھا لیکن افواج پاکستان‘ سول آرمڈ فورسز‘ انٹیلی جنس ایجنسیاں‘ عوام‘ پولیس اور صوبائی حکومتیں سب ساتھ نہ ہوتیں تو صورتحال بہتر نہ ہوتی۔ پانچ سے چھ دھماکے روزانہ ہوتے تھے‘ دھماکہ نہ ہونا بڑی خبر ہوتی تھی۔ اب مہینوں‘ ہفتوں دھماکے نہیں ہوتے‘ شمالی وزیرستان سے دہشت گرد حملے ہوتے تھے، کیوں کسی نے کارروائی نہیں کی‘ دہشتگردی کے نیٹ ورک اب سرحد پار ہیں۔

ان کے سہولت کار اور ہیلپرز کے خلاف بھی کارروائی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہزاروں لوگوں کو پکڑا گیا ہے، کئی کے خلاف کیسز بنے‘ کئی پر ہماری نظر ہے۔ سیکیورٹی کی صورتحال میں بہت بہتری آئی ہے، کسی دہشت گرد تنظیم کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔جو بھی دہشت گردی میں ملوث ہے اس کو پکڑا جائے گا یا ختم کیا جائے گا۔ کسی دہشت گرد تنظیم کا ہیڈ کوارٹر اب پاکستان میں نہیں ہے‘ پہلے شمالی وزیرستان میں ان کے ہیڈ کوارٹرز تھے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ فرقہ وارانہ سرگرمی میں ملوث تنظیموںکے رہنما تو کالعدم ہو جاتے ہیں وہ بھی اسی طرح کیس بھگتتے ہیں جس طرح دہشت گرد لیکن ان کے ورکرز اور پیروکاروں جن پر الزام نہیں ہوتا ان کے خلاف کارروائی کے لئے قانون نہیں ہے کیونکہ وہ دہشتگردی میں ملوث نہیں ہوتے۔ یہاں کہا گیا میں جماعتوں سے ملتا ہوں‘ جن سے میں ملا وہ جے یو آئی (ف) ‘ جے یو آئی (س) اور جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے ساتھ آئے۔

سابق حکومتوں کے وزراء سے جب وہ ملتے رہے تب تو شور نہیں ہوا۔ اس وقت کے صدر سے بھی ایک صاحب ملے ان کی تصاویر بھی موجود ہیں تب تو کسی نے بات نہیں کی۔ ایک صاحب نے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا تب کسی نے کارروائی نہیں کی۔ وہ پی ایم ایل (ن) کے امیدوار سے ہار گئے۔ بعد ازاں ہمارے امیدوار کو ڈی سیٹ کردیا گیا تب تو کوئی نہیں بولا۔ سپریم کورٹ‘ ہائی کورٹس میں وہ پھرتے رہے‘ تب بھی اگر یہ شور کرتے تو مجھے اچھا لگتا۔

ایک غیر ارادی ملاقات میں اگر وہ آگئے اور خاموش بیٹھے رہے تو اس پر شور کیا گیا۔ دہشتگرد تنظیم کی تو کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن فرقہ وارانہ سرگرمی میں ملوث لوگوں کے حوالے سے قانون میں فرق ہے۔ دونوں ایوانوں میں نیا قانون لانے کیلئے ذمہ داری متعلقہ اداروں کو دی ہے تاکہ دہشتگرد فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف ضروری کارروائی ہوسکے۔جب حکومت کسی کو کالعدم تنظیم ڈیکلیئر کرتی ہے تو اس کا ایک طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے‘ اس تنظیم کو اپیل کا حق بھی ہے۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ایک فرقہ وارانہ تنظیم کا کیس ابھی بھی چل رہا ہے، معاملہ ہائیکورٹ میں ہے‘ میں نے کبھی کسی صوبائی حکومت پر تنقید نہیں کی۔ تمام اداروں کو مل کر کام کرنا چاہیے اور پاکستان کو درپیش زندگی اور موت کے مسئلے پر مل کر پیش رفت کرنی چاہیے۔ یہ شیئرڈ رسپانسبلٹی ہے۔ سیکیورٹی کے مسئلے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔

اب تک کی کامیابیاں ہمارے مل کر کام کرنے سے ہوئی ہیں۔ مشترکہ کاوشوں سے ہم جو تھوڑا سفر رہ گیا ہے اس کو بھی طے کرلیں گے۔ چوہدری نثار نے ارکان اسمبلی سے اپیل کی کہ سکیورٹی کے معاملے کو سیاست کی ںذر نہیں کرنا چاہیے ،ْکبھی سندھ اور خیبرپختونخوا حکومت پر تنقید نہیں کی، سیہون واقعے کے بعد مجھ پر تنقید ہوئی جس کی وضاحت کی۔قبل ازیں سینیٹر سحر کامران نے تحریک پیش کی کہ یہ ایوان وفاقی وزیر برائے داخلہ کے سینٹ میں دس جنوری 2017ء کو دیئے گئے بیان کو زیر بحث لائے۔

تحریک پر بحث کے دوران انہوں نے کہا کہ کالعدم دہشت گرد گروہوں اور کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں میں فرق نہیں کرنا چاہیے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ پرائیویٹ مسلح گروپوں کو پاکستانی سرزمین پر کام کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں ہونی چاہیے۔سینیٹر میاں عتیق شیخ نے بتایا کہ ہمارے دشمن ملک کے اندر بھی ہیں اور باہر بھی‘ جونا گڑھ‘ حیدرآباد اور مقبوضہ کشمیر کے نمائندوں کی نشستیں بھی اس ایوان میں مختص کرنے کیلئے قرارداد پیش کرنی چاہیے جس طرح بھارت کی اسمبلی میں کی گئی ہے۔

دہشت گردی کے خلاف قوم متحد ہے۔ سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ دہشت گرد ملک کے دشمن ہیں، رفاہی کام کرنے والوں میں کچھ عناصر کی وجہ سے سب کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔چوہدری تنویر نے کہا کہ تنقید کرنا حکومت کا حق ہے لیکن آج اس ملک میں پی ایس ایل ہوتی ہے‘ سابق دور میں کسی کی جان و مال محفوظ نہیں تھی‘ ملک میں کوئی بزنس مین آنے کے لئے تیار نہیں تھا‘ سفارتکار چند ہوٹلوں کے علاوہ کسی جگہ نہیں جاسکتے تھے۔

دہشتگردی کی لعنت کو کافی حد تک کم کردیا گیا ہے، یہ ذہن میں نہیں رکھنا چاہیے کہ مذہبی جماعتیں یا مدارس دہشتگردی میں ملوث ہیں، جو لوگ ملک کی خدمت کر رہے ہیں ان کو سراہنا چاہیے۔ سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کے لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ سینیٹر مولانا تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ دہشتگردوں کے سہولت کار اشرافیہ میں شامل ہیں، ان کا کھوج لگانا بھی ضروری ہے، جو بھی ان کے سہولت کار ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

سہولت کاروں کے بارے میں بے شک ان کیمرہ بریفنگ دی جائے۔ ان کو بے اثر کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشتگردی میں کمی آئی ہے اس کے لئے جس جس نے بھی کردار ادا کیا ہے ان کو سراہتے ہیں۔ سینیٹر سلیم ضیاء نے کہا کہ گزشتہ ادوار میں پولیٹکل ول نہ ہونے کی وجہ سے خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی‘ وزیر داخلہ نے جس طرح مشکل حالات میں اپنا کردار ادا کیا ہے اس کو سراہا جانا چاہیے۔

حالات اس قدر خراب تھے کہ لوگ عید کی نماز پڑھنے بھی نہیں نکلتے تھے‘ اب کراچی اور سندھ میں بھی امن ہے۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ سابق حکومت میں آنیاں جانیاں کرنے والے لوگ تھے‘ آج حکومت کام کر رہی ہے۔ کچھ لوگوں کو چوہدری نثار سے مسئلہ ہے‘ ان پر تنقید ضرور کریں لیکن اختلاف برائے اختلاف نہ کریں‘ تعمیری بحث ہونی چاہیے۔ن لیگ کے سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ صرف وزیر داخلہ کو تنقید کا نشانہ بنانا مناسب نہیں، کچھ لوگوں کو چودھری نثار پسند نہیں۔