سمگلنگ سے ملکی معیشت اور عوام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، ملک میں مردم شماری کا آغاز خوش آئند ہے‘ ایف بی آر کو سمگلنگ اور کرپشن سے بے تحاشا نقصان ہوتا ہے

ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کا اظہار خیال

پیر 20 مارچ 2017 18:25

سمگلنگ سے ملکی معیشت اور عوام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، ملک میں ..
اسلام آباد ۔20 مارچ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 مارچ2017ء) ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے سمگلنگ کی روک تھام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ سمگلنگ سے ملکی معیشت اور عوام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹر محسن عزیز نے تحریک پیش کی کہ یہ ایوان الیکٹرانکس ٹیکسٹائل مصنوعات اور دیگر سامان کی سمگلنگ اور باڑہ مارکیٹوں میں ان کی فروخت ‘ جس کے مقامی صنعت اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ ان کی فروخت سے پیدا ہونے والی صورتحال کو زیر بحث لائے۔

تحریک پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ملک میں مردم شماری کا آغاز خوش آئند ہے‘ ملک کی آبادی مزید بڑھ جائے گی۔

(جاری ہے)

بڑی تعداد میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔ سمگلنگ نے ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہر جگہ مارکیٹیں سمگل شدہ سامان سے بھری ہیں۔ اب جو سمگلنگ ہو رہی ہے یہ سڑکوں کے ذریعے ہو رہی ہے اور تمام سرحدی و دیگر چیک پوسٹوں سے گزر کر آتا ہے۔

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا اس میں بڑا حصہ ہے۔ کراچی ٹرمینل پر سکینرز صرف چار گھنٹے چلائے جاتے ہیں۔ پاکستان کو صرف سمگلنگ کی وجہ سے تین ارب ڈالر کا نقصان ٹیکسوں میں ہوتا ہے۔ جو سامان سمگل کیا جاتا ہے وہ ایک دو آئٹمز کے سوا یہاں بھی تیار ہوتا ہے اس طرح مقامی صنعت کو بے تحاشا نقصان ہوتا ہے۔ بھارت سے بھی چار بلین ڈالر کی ٹیکسٹائل مصنوعات سمگل ہو رہی ہیں۔

سمگلنگ کے خلاف بھی آپریشن ہونا چاہیے۔ سرحدوں کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں سمگلنگ کو بھی کنٹرول کرنا ہے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ایف بی آر کو سمگلنگ اور کرپشن سے بے تحاشا نقصان ہوتا ہے۔ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بجائے سمگلنگ کو روکا جائے۔ سینیٹر عتیق شیخ نے کہا کہ ملک میں جتنی سمگلنگ ہو رہی ہے وہ ملی بھگت سے ہو رہی ہے۔ نعمان وزیر نے کہا کہ جاپان والے حیران ہیں کہ ان کی اشیاء افغانستان آتیں اور آگے کہاں چلی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس سمگلنگ پر قابو پانے کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ آج سمگلر معاشرے کا باعزت شخص بن چکا ہے۔ نہال ہاشمی نے کہا کہ سمگلنگ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمگلنگ پر پریشان لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی لیڈر شپ تو سول نافرمانی کا سبق دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب کا فرض کہ وہ غیر قانونی مارکیٹیں ختم کریں تاکہ بیروزگاری کا خاتمہ ہو۔

یہ حکومت کا نہیں پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ میرٹ پر تعیناتی کریں تو سمگلنگ پر صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ رحمان ملک نے کہا کہ سمگلنگ کی اصل وجہ ایس آر اوز ہیں، جو ہر حکومت نے جاری کئے۔ حکومت بجٹ خسارہ کم کرنے کے لئے اس معاملے کو نظر انداز کرتی۔ گورنر سٹیٹ بنک ‘ خزانہ‘ سمندر پار پاکستانیز کے وزراء کے سامنے یہ بحث ہونی چاہیے۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ سمگلنگ کا تدارک اس لئے نہیں ہو رہا کہ تمام حکومتیں کسی نہ کسی حد تک اس لعنت میں شامل رہی ہیں۔

سمگلنگ جی ٹی روڈ کا باقاعدہ ٹھیکہ ہوتا ہے۔ 32 چیک پوسٹیں اور سب پر سہولت فراہم ہوتی ہے۔ ایف بی آر کی ایک رپورٹ اس حوالے سے التواء میں پڑی ہے اور اسے جاری نہیں کیا جارہا ہے۔ سابقہ چیئرمین کسٹم سے تعلق رکھتے تھے لیکن سمگلنگ کم نہ ہوسکی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک منظم دھندہ ہے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ اس حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں تمام متعلقہ وزارتوں کے نمائندے شامل ہوں اور وہ کمیٹی اس کے خاتمے کے حوالے سے رپورٹ تیار کرکے ایوان میں پیش کرے۔

سینیٹر ثمینہ عابد نے کہا کہ ہمیں محض تنقید برائے تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ ہم چھوٹے سمگلروں کے پیچھے پھرتے رہتے ہیں اور بڑوں کو سہولت دے رہے ہیں۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ہم صرف بحث کرتے ہیں کوئی اس حوالے سے تجاویز تو سامنے نہیں آئی۔ بلوچستان کا ایران اور افغانستان کا بارڈر بند ہے‘ جو ٹوکری میں تجارت کرتا ہے وہ سمگلر اور جو کنٹینر میں کرتا ہے وہ معزز کہلاتا ہے۔