دہشتگردی کے نیٹ ورک اب سرحد پار ہیں‘ ان کے سہولت کاروں اور ہیلپرز کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ہے‘ کسی دہشتگرد تنظیم کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں‘

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا ایوان بالا میں بحث سمیٹتے ہوئے اظہار خیال

پیر 20 مارچ 2017 18:16

دہشتگردی کے نیٹ ورک اب سرحد پار ہیں‘ ان کے سہولت کاروں اور ہیلپرز کے ..
اسلام آباد ۔20 مارچ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 مارچ2017ء) وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے نیٹ ورک اب سرحد پار ہیں‘ ان کے سہولت کاروں اور ہیلپرز کے خلاف بھی کارروائی کی گئی ہے اور ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے ہیں‘ کسی دہشتگرد تنظیم کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں‘ فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں ملوث کالعدم تنظیموں کے رہنما تنظیم کے کالعدم ہونے کے بعد اسی طرح قانونی کارروائی کا سامنا کرتے ہیں جس طرح دہشتگرد‘ لیکن ان کے پیروکاروں اور کارکنوں جن پر کوئی الزام نہیں ہوتا‘ کے خلاف کارروائی کیلئے قانون سازی کی ضرورت ہے‘ میری ایک غیر ارادی ملاقات پر بہت شور کیا گیا‘ جب کالعدم تنظیموں کے رہنما سابق صدر اور وزراء سے ملتے تھے تب کوئی نہیں بولا‘ پاکستان کو درپیش زندگی اور موت کے مسئلے پر ہمیں مل کر پیش رفت کرنی ہے‘ یہ مشترکہ ذمہ داری ہے‘ سیکیورٹی کے مسئلے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔

(جاری ہے)

پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹر سحر کامران اور دیگر ارکان کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اس ایوان میں دیئے گئے میرے گزشتہ بیان کے بعد اس بیان کو ایوان کے باہر نئے نئے معنی پہنائے گئے جس دن میں نے یہ بیان دیا تھا بہتر ہوتا اسی دن وضاحت مانگ لیتے۔ میں چیئرمین سینٹ سے یہ کہتا ہوں کہ ہمیں حقائق اور دلیل کے ساتھ سچ بولنا چاہیے‘ ایوان میں جو بات ہو اس کا ایوان میں جواب آنا چاہیے۔

اپنے بیان کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں اس لئے خود ایوان میں آیا ہوں۔ میرے سابقہ بیان کی کاپی اس ایوان میں تقسیم کی جائے اگر میں نے یہ کہا ہے کہ دہشت گردوں سے نرمی برتنی چاہیے تو جوابدہ ہوں‘ میں نے کسی کو کمتر دہشتگرد نہیں کہا۔ ان سینیٹرز کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہوش سے اور حقائق اور دیل سے بات کی۔ آج ہم کالعدم تنظیموں کے بارے میں دونوں ایوانوں میں بات کرتے ہیں۔

اس معاملے پر میڈیا میں بھی بات ہوتی ہے۔ میں نے دونوں ایوانوں میں کھل کر کہا کہ سیکیورٹی سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ کراچی کی صورتحال کے حوالے سے 28 اگست 2013ء کے اخبارات نکال لیں‘ ڈاکٹر فاروق ستار نے کیا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں میں نے وزیراعلیٰ سندھ کو کپتان کہا‘ رینجرز ہیڈ کوارٹرز‘ گورنر‘ سینئر سیاسی رہنمائوں‘ وزیراعلیٰ سمیت سب سے ملاقاتیں کیں۔

میں نے سی ایم سے کہا کہ یہ صوبائی مسئلہ ہے، سب کریڈٹ آپ کا ہے، آپ صورتحال کو بہتر کریں‘ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ یہ شیئرڈ رسپانسیبلٹی ہے۔ قائم علی شاہ پر بہت دبائو تھا لیکن انہوں نے عمدہ کام کیا، فیصلے وفاقی حکومت نے کئے‘ وزارت داخلہ کا بنیادی کردار تھا لیکن افواج پاکستان‘ سول آرمڈ فورسز‘ انٹیلی جنس ایجنسیاں‘ عوام‘ پولیس اور صوبائی حکومتیں سب ساتھ نہ ہوتیں تو صورتحال بہتر نہ ہوتی۔

پانچ سے چھ دھماکے روزانہ ہوتے تھے‘ دھماکہ نہ ہونا بڑی خبر ہوتی تھی۔ اب مہینوں‘ ہفتوں دھماکے نہیں ہوتے‘ شمالی وزیرستان سے دہشت گرد حملے ہوتے تھے، کیوں کسی نے کارروائی نہیں کی‘ دہشتگردی کے نیٹ ورک اب سرحد پار ہیں۔ ان کے سہولت کار اور ہیلپرز کے خلاف بھی کارروائی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہزاروں لوگوں کو پکڑا گیا ہے، کئی کے خلاف کیسز بنے‘ کئی پر ہماری نظر ہے۔

سیکیورٹی کی صورتحال میں بہت بہتری آئی ہے، کسی دہشت گرد تنظیم کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔جو بھی دہشت گردی میں ملوث ہے اس کو پکڑا جائے گا یا ختم کیا جائے گا۔ کسی دہشت گرد تنظیم کا ہیڈ کوارٹر اب پاکستان میں نہیں ہے‘ پہلے شمالی وزیرستان میں ان کے ہیڈ کوارٹرز تھے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ فرقہ وارانہ سرگرمی میں ملوث تنظیموںکے رہنما تو کالعدم ہو جاتے ہیں وہ بھی اسی طرح کیس بھگتتے ہیں جس طرح دہشت گرد لیکن ان کے ورکرز اور پیروکاروں جن پر الزام نہیں ہوتا ان کے خلاف کارروائی کے لئے قانون نہیں ہے کیونکہ وہ دہشتگردی میں ملوث نہیں ہوتے۔

یہاں کہا گیا میں جماعتوں سے ملتا ہوں‘ جن سے میں ملا وہ جے یو آئی (ف) ‘ جے یو آئی (س) اور جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے ساتھ آئے۔ سابقہ حکومتوں کے وزراء سے جب وہ ملتے رہے تب تو شور نہیں ہوا۔ اس وقت کے صدر سے بھی ایک صاحب ملے ان کی تصاویر بھی موجود ہیں تب تو کسی نے بات نہیں کی۔ ایک صاحب نے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا تب کسی نے کارروائی نہیں کی۔

وہ پی ایم ایل (ن) کے امیدوار سے ہار گئے۔ بعد ازاں ہمارے امیدوار کو ڈی سیٹ کردیا گیا تب تو کوئی نہیں بولا۔ سپریم کورٹ‘ ہائی کورٹس میں وہ پھرتے رہے‘ تب بھی اگر یہ شور کرتے تو مجھے اچھا لگتا۔ ایک غیر ارادی ملاقات میں اگر وہ آگئے اور خاموش بیٹھے رہے تو اس پر شور کیا گیا۔ دہشتگرد تنظیم کی تو کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن فرقہ وارانہ سرگرمی میں ملوث لوگوں کے حوالے سے قانون میں فرق ہے۔

دونوں ایوانوں میں نیا قانون لانے کیلئے ذمہ داری متعلقہ اداروں کو دی ہے تاکہ دہشتگرد فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف ضروری کارروائی ہوسکے۔جب حکومت کسی کو کالعدم تنظیم ڈیکلیئر کرتی ہے تو اس کا ایک طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے‘ اس تنظیم کو اپیل کا حق بھی ہے۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ایک فرقہ وارانہ تنظیم کا کیس ابھی بھی چل رہا ہے، معاملہ ہائیکورٹ میں ہے‘ میں نے کبھی کسی صوبائی حکومت پر تنقید نہیں کی۔

تمام اداروں کو مل کر کام کرنا چاہیے اور پاکستان کو درپیش زندگی اور موت کے مسئلے پر مل کر پیش رفت کرنی چاہیے۔ یہ شیئرڈ رسپانسبلٹی ہے۔ سیکیورٹی کے مسئلے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ اب تک کی کامیابیاں ہمارے مل کر کام کرنے سے ہوئی ہیں۔ مشترکہ کاوشوں سے ہم جو تھوڑا سفر رہ گیا ہے اس کو بھی طے کرلیں گے۔