ضیا الحق نے آمریت کو طول دینے کے لیے معاشرے کے تین اہم ستون کو تباہ کرنے کے لیے ریاستی طاقت کو استعمال کیا، چیئرمین سینیٹ

طلبہ تنظیموں پر پابندی لگا کر دائیں بازوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی جس سے ملک میںتشدد اور عدم برداشت کا ماحوال پروان چڑھا ، تقریب رونمائی سے خطاب

اتوار 19 مارچ 2017 22:11

-کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 مارچ2017ء) چیئرمین سینٹ میاں رضاربانی نے کہا کہ ضیا الحق نے آمریت کو طول دینے کے لیے معاشرے کے تین اہم ستون کو تباہ کرنے کے لیے ریاستی طاقت کو استعمال کیا جن میں طلبہ یونین، ٹریڈ یونین اور کافی ہاس شامل تھے تاکہ سوچنے سمجھنے اور بات کرنے والے طبقات کو ختم کیا جاسکے طلبہ تنظیموں پر پابندی لگا کر دائیں بازوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی جس سے ملک میںتشدد اور عدم برداشت کا ماحوال پروان چڑھا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں ، ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو آرٹس کونسل کے زیر اہتمام اپنی کتاب انویزبل پیپل کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر آرٹس کونسل کے صدرمحمد احمد شاہ،وفاقی وزیر حاصل خان بزنجو،سینئر صوبائی وزیر نثار احمد کھوڑو، سنئیر صحافی غازی صلاالدین،زاہدہ حنا،مجاہد بریلوی، نصیر میمن اور ڈاکٹرچارلس امجد نے بھی خطاب کیا جبکہ نظامت کے فرائض انجم رضوی نے انجام دئیے۔

(جاری ہے)

میاں رضا ربانی نے کہا کہ اس کتاب کو انگریزی میں لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ میری اردو مادری زبان ہونے کے باوجود کمزور ہے اور اس کی کمزوری میرے یہ احساسات ہیں کہ ریاست نے اردو کو مجھے پر جبرا بطور قومی زبان مسلط کیا ہے، متحد پاکستان میں بنگالی اکثریتی زبان ہونے کے باوجود قومی زبان تسلیم نہیں کی گئی آج بھی مختلف اکائیوں میں مختلف زبانوں اور ثقافتوں کو تسلیم کیے بغیر پاکستانی ثقافت کیسے وجود میں آسکتی ہے، ہماری ثقافت عرب ثقافت نہیں، ہماری اپنی ثقافت ہے۔

جس کے لئے علاقائی زبانوں کو تسلیم کرنا پڑھے گا۔انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں معاشرے کے محروم اور پسماندہ طبقات کی دلجوئی اور خدمت کریں، استحصالی نظام سے امیر اور غریب کا فرق بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ دوہرے معیار ، سماجی تضادات اور معاشی استحصال نے ہمارے معاشرے کو برباد کردیا ہے اور ہم حقیقی پاکستان فراموش کئے بیٹھے ہیں جس میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہیں ہسپتالوں میں علاج،کچہری تھانوں میںانصاف نہیں ملتا۔

انہوں نے کہا کہ زندگی کی بعض حقیقتیںپاکستان کی اشرافیہ کو نظر نہیں آ رہیں۔ حالانکہ یہ تلخ حقیقتیںہماری روزمرہ زندگی میں سامنے نظر آتی ہیںاور ان حقیقتوں میں انہیں مجبور کیا کہ وہ معاشرے کے ان نظر انداز ، پسے اور غربت اور مایوسی کے مارے پاکستانیوں کے جذبات کی عکاسی مختصر کہانیوں کے مجموعے کی صور ت میں کریں۔چیئرمین سینٹ میاں رضاربانی نے صحافیوں سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آج ان کے پاس دینے کے لیے کوئی خبر نہیں ہے کیوں کہ اپنی کتاب میں، میں نے ان لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جواصل پاکستان ہیں لیکن خبریت کے قابل نہیں اس لیے میں نے ان کی کہانی بیان کرنے کے لیے ادب کا سہارا لیا ہے اور ادب خبر نہیں ہوتا واقع ہوتا ہے جو زندگی کی حقیقت اور سچائی کو بیان کرتا ہے۔

چیئرمین سینٹ میاں رضاربانی نے کہا کہ کراچی روشینوں کا شہر ہے۔کراچی کا مزدور جاگ رہا ہے۔کراچی کے طالب علموں نے اس ملک کے لئے اپنا خون دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری کہانیوں کے کردار نے میری انگلی پکڑ کر کہا کہ چلو میری زندگی کو دیکھو اور میری کہانی لکھو۔ انہوں نے اپنی کتاب میں مختلف مختصر کہانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک مزدور ہسپتال کے باہر پڑا ہے اور ہسپتال میں اسے جگہ نہیں مل رہی اور اس کی بچی معالج کو تلاش کرتی ہے۔

وہ مل مزدور سرمایہ دار کی مل میں کام کرتا ہے۔وہ مل مزدور سرمایہ دار اس وقت نظر آتا ہے جب تک وہ اس کی مل کا پہیہ چلا رہا تھا لیکن جب وہ مل سے باہرنکلتا ہے اس کی زندگی تو مشکلات میں گھری ہوئی تھی لیکن اس کی مشکلات مل مالک کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ اس کی محبت کی زندگی بھی غربت اور قسم پرسی میں کچلی گئی ہے۔کیا کسی مزدور کی محبت کی زندگی نہیں ہوسکتی وہ صرف مشکلات کے لیے ہے۔

اور یہ ہی حقیقت اصل پاکستان ہے۔ ایک دوسری کہانی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ان بچیوں کا ذکر کیا جنہیں اغواکرکے فحاشی اور عریانی کے اڈوں پر فروخت کردیا جاتا ہے اور اشرافیہ نے آنکھیں پھیری ہوئی ہیں۔ جبکہ سڑکوں اور چوراہوں پر بچے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں اور ایک مافیا ان کی سوچ کو کچل رہا ہے لیکن اشرافیہ کو پاکستان کی یہ حقیقت نظرنہیں آتی۔

کہانیوںکی کتاب کا پروگرام مکمل کہانی جیسا تھا ۔وفاقی وزیر حاصل خان بزنجو نے کہا ہے کہ رضا ربانی اقتدارا کے اعلی ایوانوں میں بھی بیٹھ کر متوسط اور غریب طبقے کے بارے میں سوچتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسی طبقہ میں رہتا ہے رضا ربانی ایک بااصول سیاست دان ہے جس نے سینیٹ میں بھی اپنے اصول کو منوایا ہے ایسے افسانے اور کہانیاں وہی شخص لکھ سکتا ہے جس نے اسول پسندی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے دکھ دردر کو محسوس کرنے کی حس بھی ہو،رضا ربانی برصغیر کے ان چوٹی کے سیاست دانوں میں سے ایک ہیں جنہں نے کتابیں لکھیں ورنہ آج کا سیاست دان صرف اپنا ہی بیان پڑھتا ہے ، ان کا اس قوم پر ایک اور احسان ہے کہ انہوںنے آٹھاریوں ترامیم میں اہم کردار ادا کیا اور تمام پارٹیوں کو ایک جگہ اور ایک نقطہ پر متفق کرنا رضا ربانی ہی کا کارنامہ ہے۔

محمد احمد شاہ نے کہا کہ اسلام آباد میں غریبوں کی آواز رضا ربانی ہیں۔ادیب ،دانشور اور آرٹس کونسل کے ممبرز اس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے باضابطہ غوروفکر کررہے ہیں اور ہم سب سمجھتے ہیں کہ معاشرے کو بہتر اور پر امن بنانے کے لیے میگنا کارٹاجیسے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے اور یہ اس طبقے کی ضرورت اور سوچ ہے جس کے لیے رضا ربانی نے اپنی کتاب میں کہانیاں لکھی۔

میری گزشتہ روز وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات ہوئی ان کے گفتگو سے لگا کہ وہ بھی تبدیلی چاہتے ہیں۔سینئر صوبائی وزیرنثار کھوڑو نے کہا کہ رضا ربانی دل کے اندر معاشرے کی خرابیوں کو محسوس کرتا ہے اور وہی احساسات اس نے اپنی کتاب کے اندر تحریر کیے جو صرف فرضی کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔اس کتاب میں ان لوگوں کی آرزو ہے جن کو کوئی نہیں سنتا، رضابانی نے ساری زندگی آئین اور قوانین کی بالادستی کی بات کی اور اب پسے ہوئے انسان کے حقوق کی بات کررہے ہیں اور ان دونوں میں مماثلت ہے۔

زاہدہ حنا نے کہا کہ یہ پہلی کتاب ہے جس کی کہانیاں میں نے شروع سے لیکر آخر تک حرف بہ حرف پڑھیں ہیں۔انہوں نے رضا ربانی کی کاوشوں کو سراہا اور کہا کہ جن کرداروں کے ذریعے معاشرتی نا انصافیوں کو اجاگر کیا گیا ہے وہ مثالی ہیں اور یہ کتاب سب کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتی ہیں۔ نصیر میمن نے کہا کہ جہاں منٹو نے کہانی چھوڑی تھی رضاربانی نے اسے وہاں سے آگے بڑھایا ہے۔

میاں رضاربانی کے خیالات کا دائرہ انتہائی وسیع ہے جوکہ اکیسویں صدی میں انسانی حقوق سے متعلق درپیش مسائل بھرپور احاطہ کرتے ہیں۔ غازی صلاح الدین نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے میاں رضاربانی کی اس کاوش کو علم و ادب کی دنیا میں اضافہ قرار دیا۔ ڈاکٹرچارلس امجدعلی نے کہا کہ رضا ربانی نے کہانیوں کے اس مجموعے پر چیئرمین میاں رضاربانی کو داد دی اور کہا کہ معاشرے کے تلخ حقائق کو ایک جامع انداز میں پیش کرنا ایک بہت بڑی خوبی ہے۔مجاہد بریلوی نے کہا ہے کہ اس کتاب میں پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے ان کرداروںکی کہانیاں ہیں جنہیں ہمارے ریاستی اداروں سے انصاف نہیں ملتا۔

متعلقہ عنوان :