لاپتا پاکستانی لڑکی نورین لغاری داعش میں شامل ہوگئی

Fahad Shabbir فہد شبیر اتوار 19 مارچ 2017 21:05

لاپتا پاکستانی لڑکی نورین لغاری داعش میں شامل ہوگئی
حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔19مارچ۔2017ء)صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد کی پولیس کا کہنا ہےکہ لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز جاشورو یعنی لمس کی سال دوم کی ایک طالبہ جو کچھ عرصہ پہلے لا پتا ہوگئی تھی، اپنی مرضی سے دہشت گرد گروپ داعش میں شامل ہوگئی ہے۔ نورین لغاری جو سندھ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی بیٹی ہے، اس نے 10 فروری کو یونیورسٹی کی صبح کی کلاسوں میں شرکت کی تھی اور پھر اس کے بعد اسے نہیں دیکھا گیا۔

وائس آف امریکہ کے مطابق پاکستانی اخبار دی نیوز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انیٹلی جینس ذرائع کے مطابق حالیہ عرصے میں صوبے کے مختلف علاقوں کے شہرت یافتہ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم لاپتا ہونے والی لگ بھگ ایک درجن لڑکیاں ، ان کے خیال کے مطابق داعش میں شامل ہو چکی ہیں۔

(جاری ہے)

لمس کی ایک طالبہ نورین اس سال 10 فروری کو لاپتا ہو گئی تھی۔

حیدر آباد پولیس کے ایس ایس پی عرفان بلوچ نے میڈیا کو بتایا کہ جواں سال لڑکی داعش کے نظریات سے متاثرتھی اور وہ اپنی رضا سے اس گروپ میں شامل ہونے کے لیے چلی گئی۔ پولیس افسر کا مزید کہنا تھاکہ نورین لغاری نے اپنے انتہاپسند نظریات سوشل میڈیا پر شیئر کیے ہیں۔ پولیس نے ایک ویڈیو حاصل کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ اپنی گمشدگی کے دن لڑکی اکیلی لاہور کے لیے روانہ ہوتی ہے اور پھر اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے والدین کو آگاہ کیا وہ خلافت کی سرزمین پر پہنچ گئی ہے۔

نورین لغاری جو سندھ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی بیٹی ہے، اس نے 10 فروری کو یونیورسٹی کی صبح کی کلاسوں میں شرکت کی تھی اور پھر اس کے بعد اسے نہیں دیکھا گیا۔ نورین کے والد پروفیسر لغاری نے حیدر آباد پولیس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی بیٹی کے نظریات اتنے شدید نہیں تھے کہ داعش میں شامل ہونے کے لیے نکل کھڑی ہوتی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کو یقیناً اغوا کیا گیا ہے۔

پولیس ذرائع کے مطابق نورین کے موبائل فون نمبر کا حیدر آباد کی وحدت کالونی میں موجودگی کا کھوج ملاہے۔ جس سے یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنی مرضی سے لاہور چلی گئی تھی تو اس کا فون کون استعمال کر رہا تھا۔ اس مقدمے کے تفتیش کاروں نے بتایا کہ نورین نے اپنے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ پراس قدر انتہاپسندانہ مواد اپ لوڈ کیا تھا کہ انتظامیہ نے اس صفحے کو بلاک کر نے کے بعد نورین کے والد سے کہا تھاکہ وہ اپنی بیٹی کی شدت پسندانہ سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ تعلیمی اداروں میں کئی کالعدم تنظیموں کے کارندے سرگرم ہیں اور وہ نوجوانوں کو اپنے گروپس میں شامل کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے ورغلا رہے ہیں۔