سپریم کورٹ میں پنجاب ،سندھ اور خیبر پختونخوا میں قتل سے متعلق مقدمات کی سماعت

2ملزمان بری‘ بنوں جیل سے فرار ہونے والے ملزم کی سزائے موت کے خلاف اپیل خارج

جمعہ 17 مارچ 2017 22:37

سپریم کورٹ میں پنجاب ،سندھ اور خیبر پختونخوا میں قتل سے متعلق مقدمات ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 مارچ2017ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب ،سندھ اور خیبر پختونخوامیں قتل سے متعلق مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے 2ملزمان کو بری جبکہ بنوں جیل سے فرار ہونے والے ملزم اکرام اللہ کی سزائے موت کے خلاف اپیل خارج کردی،دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ ماتحت عدالتوں کے ججز کو مقدمے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کرنا چاہئے، مقتول کا خون ضائع گیاتو ذمہ داری متعلقہ سیشن جج کی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن کو مقدمات پر بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے، اگر پراسیکیوشن ایمانداری سے مقدمات پر توجہ دے تو پراسیکیوشن کا نظام بہتر کیا جاسکتا ہے ،ہم مقدمات کے ریکارڈ کا مکمل جائزہ لے کر عدالت آتے ہیں اسی لیے 20منٹ میں تین مقدمات کا فیصلہ کردیا۔

(جاری ہے)

جمعہ کے روز جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مقدمات کی سماعت کی ،فاضل بنچ نے سندھ کے ضلع گھوٹکی میں پٹھان کلہوڑو نامی شخص کو قتل کرنے والے ملزم نواب کی اپیل کی سماعت کی تو جسٹس دوست محمد نے ملزم کے وکیل عبدالوہاب سے استفسار کیا کہ کیا سندھ میں ججز کنٹریکٹ پر تعینات ہوتے ہیں جو اس طرح کے فیصلے کرتے ہیں ،سندھ میں حقائق دیکھے بغیر فیصلے ہوتے ہیں ،جسٹس کھوسہ نے کہا کہ حالت یہ ہے کہ ہائی کورٹ نے محفوظ شدہ فیصلہ 10ماہ بعد سنایا،جبکہ ہم نے بیس منٹ میں تین فیصلے کردئیے وجہ یہ ہے کہ ہم کیس کا مطالعہ کرکے آتے ہیں ،ماتحت عدلیہ کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا،ججوں نے بھی اپنے فیصلوں کا جواب دینا ہے ،اس پر وکیل نے کہا کہ سندھ میں ذیلی عدالتوں کے لیے ججز بنکنک کورٹس سے لیے جاتے ہیں ،ان کو فوجداری ٹرائل کا تجربہ نہیں ہوتا ،کرمنل پریکٹس کرنے والوں کو بطور جج تعینات نہیں کیا جاتا اس لیے ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، عدالت نے دلائل سننے کے بعد قرار دیا کہ ملزم نواب علی کے مقدمے میں نہ کوئی گواہی ہے اور نہ قتل کے محرکات ثابت ہو سکے ہیں ،اس لیے ملزم کو مقدمے سے بری کیا جاتا ہے، فاضل بنچ نے پنجاب کے ایک قتل کے مقدمے میں ملزم شہباز کی اپیل کی سماعت کی جس پر الزام تھا کہ اس نے 8اگست 2005ء میں گوہرعباس نامی شخص کو قتل کردیا تھا جس پر ٹرائل کورٹ نے اسے سزائے موت سنائی جسے ہائی کورٹ نے عمر قید میں تبدیل کردیا تھا ، جس پرملزم نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا ،ملزم کی وکیل عائشہ تسنیم کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے قرار دیا کہ گواہان موقع پر موجود نہیں تھے اور شواہد بھی ناکافی ہیں جس سے ملزم پر جرم ثابت نہیں ہوا۔

عدالت نے ملزم کو مقدمے سے بری کردیا ، فاضل عدالت نے بنوں جیل سے فرار ہونے والے مجرم اکرام اللہ کی جانب سے دائر اپیل خارج کردی۔